تعارف کرایا کہ یہ فلاں عورت ہے اور یہ رات بھر نہیں سوتی،جاگتی رہتی ہے۔اس کی نماز کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا گیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی (لوگو!) تمہارے اوپر بس اتنا عمل کرنا ہی لازم ہے کہ جتنی تم اپنے اندر طاقت پاتے ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ثواب دیتے ہوئے نہیں تھکتے،البتہ تم ہی تھک جاؤ گے عمل کرتے کرتے!‘‘ [1]
ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمایے!
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ:
’’مجھ سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر قیام کرتے ہو اور دن کو روزے سے ہوتے ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں ! آپ نے صحیح سنا۔بات ایسے ہی ہے۔میں اسی طرح کرتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ایسے ہی عبادت کرو گے،پھر تو تمہاری آنکھیں بیٹھ جائیں گی (یعنی اندر کو دھنس جائیں گی) اور تمہاری جان کمزور ہو جائے گی۔بے شک تمہاری جان کا تم پر حق ہے،تمہارے اہل خانہ کا تم پر حق ہے،اس لیے تم کبھی روزہ رکھ لیا کرو اور کبھی نہ رکھا کرو۔کبھی قیام کرلیا کرو اور کبھی سو جایا کرو۔‘‘[2]
اب ان روایات کی روشنی میں سوچیے کہ ایک شخص مستقل ساری ساری رات نماز کے لیے جاگے،نوافل ادا کرے تو کیا اس کی یہ عبادت پسندیدہ سمجھی جائے گی؟ جبکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول اس کے برعکس تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سوتے بھی تھے اور جاگتے بھی تھے لیکن کس قدر تعجب کی بات ہے کہ صوفیا اور زاہدین کے زہد و ورع کی
|