مقدمہ
اسلام کا حسن ہے کہ اس نے جزئیات میں بھی انسانیت کی راہنمائی فرمائی ہے۔لوگوں کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا۔انہیں امن و سکون اور ترتیب و تنظیم سے زندگی گزارنے کے لیے بعض قواعد و ضوابط کا پابند ٹھہرایا۔اس کتاب میں ان ہی قواعد و ضوابط کا بیان ہے۔سونے جاگنے اور نیند سے متعلقہ احکام و مسائل کا احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں وضاحت کی گئی ہے۔سونے کے آداب،سوتے وقت کے اذکار،رات کو بیداری،نمازِ تہجد وغیرہ عنوانات پر گفتگو کی گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ’’نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے‘‘ لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ سولی تو درکنار،آرام دہ مخملیں بستروں اور آراستہ و پیراستہ خواب گاہوں میں بھی نیند سے محروم رہتے ہیں۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اس کائنات کی بزرگ ترین ہستی کہ جن ایسا کوئی آیا نہ آئے گا،وہ ننگے فرش پر کھجوروں کی ایک چٹائی پر اطمینان سے سو رہے ہوتے ہیں۔سرخ و سفید جسم اطہر پر بستر کے نشانات نمایاں ہوتے ہیں۔جاں نثارِ رسول سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بے قرار ہو کر عرض کرتے ہیں : آقا! آپ اس بستر پر سو رہے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرا اس دنیا سے کیا لینا دینا؟ میں تو یوں سمجھو رہ گزر مسافر ہوں۔حدیث مبارکہ میں کتنے ہی واقعات ہیں کہ جناب آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے استراحت فرمانے کا ذکر ہوا ہے۔کبھی آپ میدان بدر میں ساری رات مناجات اور فریاد میں گزار دیتے ہیں اور کبھی آپ کی رات سواری کی پشت پر سفر کرتے گزری ہے۔کبھی آپ راتوں کو اٹھ اٹھ کر بقیع الغرقد کے مکینوں کے لیے دعائے مغفرت کے لیے جاتے ہیں اور کبھی آپ حجرۂ عائشہ میں سجدے میں آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔کبھی رات کا وقت آپ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنے نواسوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے پاس گزارتے ہیں اور کبھی اپنے جاں نثاروں کے جھرمٹ میں۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ رات کو خواب دیکھتے اور صبح اسے بیان فرماتے اور کبھی آپ جنات سے ملاقات
|