کو سنو تو وہاں مت جاؤ اور جب یہ کسی علاقہ میں یہ وباء پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو؛ تو اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے مت نکلو ۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد بیان کی اور لوٹ گئے۔‘‘
متفق عليه: رواه البخاري في الطب (5729)، ومسلم في السلام (2219).
صحیح مسلم میں ایک روایت کے الفاظ ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر کوئی آدمی سر سبز وشاداب وادی چھوڑ کر خشک اور بےآب و گیاہ وادی میں اپنے جانور چرائے تو کیا تم اسے قصور وار تصور کرو گے انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا بس چلو۔ آپ چل پڑے۔ جب مدینہ آگیا تو آپ نے کہا:’’ یہی قیام گاہ ہے یا کہا یہی منزل ہے؛ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
سرغ:تبوک میں شام سے پہلے ایک بستی ہے۔ اس کے اور مدینہ کے درمیان تیرہ مرحلے کا فاصلہ ہے۔ آج کل یہ سعودی عرب اور اردن کے درمیان حدود کا مرکز ہے۔‘‘
826۔حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
’’حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ شام کے لئے نکلے، یہاں تک کہ جب مقام سرغ میں پہنچے تو آپ کو خبردی گئی کہ ملک شام میں وباء پھوٹی ہے؟
تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو (کہ وہاں وباءپھیل گئی ہے) تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی جگہ وباء پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے فرار نہ ہوجاؤ راوی کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا پھر وہاں سے واپس ہوئے۔‘‘
[صحيح: رواه مالك في الجامع (24).]
827۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ شام کے لئے نکلے، تو ان کا استقبال حضرت ابو طلحہ اورحضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہما نے کیا ؛ اور کہنے لگے: اے امیر المؤمنین!
|