اور بعض نے کہا :’’آپ کے ساتھ بعض متقدمین اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں ۔ ہمارے خیال میں آپ کا انہیں اس وبا کی طرف لے جانا مناسب نہیں ۔‘‘
آپ نے کہا :’’اچھا تم جاؤ۔ پھر کہا :’’ میرے پاس انصار کو بلالاؤ ۔‘‘میں نے آپ کے لئے انہیں بلالیا۔
آپ نے ان سے مشورہ کیا تو وہ بھی مہاجرین کے راستہ پر چلے اور ان کے اختلاف کی طرح انہوں نے بھی اختلاف کیا۔ آپ نے کہا :’’میرے پاس سے تشریف لے جائیں ۔
پھر آپ نے کہا :’’ میرے پاس مہاجرین فتح مکہ میں سے قریشی بزرگوں کوبلا لاؤ ۔میں ان کو بلا لیا۔
ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہ کیا۔ سب حضرات نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ واپس چلے جائیں اور ان کو اس وباء میں نہ لے جائیں ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کردیا کہ میں سواری کی حالت میں صبح کرنے والا ہوں ۔ پس لوگ بھی سوار ہوگئے۔ توحضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم اللہ کی تقدیر سے فرار ہو رہے ہو ؟۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :’’اے ابوعبیدہ کاش یہ بات کہنے والا آپ کے سوا کوئی اور ہوتا۔ اورکہا : ’’ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر ہی کی طرف جا رہے ہیں ۔‘‘ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر آپ کے پاس اونٹ ہوں اور آپ ایسی وادی میں اتریں جس کی دو گھاٹیاں ہوں ؛ان میں سے ایک سرسبز اور دوسری خشک اور ویران و بنجر۔ اگر آپ انہیں سر سبز وشاداب وادی میں چرائیں تو کیا یہ اللہ کی تقدیر سے نہ ہوگا۔ اور اگر انہیں بنجر و ویران میں چرائیں تو کیا یہ بھی تقدیر الٰہی سے نہ ہوگا۔
اتنے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی آگئے جو کہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے موجود نہ تھے انہوں نے کہا :’’ میرے پاس اس بارے میں علم ہے۔ میں نے سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’جب تم کسی علاقہ کے بارے میں اس کی اطلاع
|