836۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حضرت ابوعسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ میرے پاس جبرائیل بخار اور طاعون کو لے کر آئے میں نے بخار کو مدینہ منورہ ہی میں روک لیا۔ اور طاعون کو شام کی طرف بھیج دیا اب طاعون میری امت کے لئے شہادت اور رحمت ہے اور جب کہ کافروں کے لئے عذاب ہے۔‘‘
حسن: رواه أحمد (20767)، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني (466)، والطبراني في الكبير (22/391).
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : میں نے بخار کو مدینہ منورہ ہی میں روک لیا۔ اور طاعون کو شام کی طرف بھیج دیا ۔‘‘اس میں حکمت یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اس وقت صحابہ تعداد میں بھی کم تھے اور ان کی مالی حالت بھی کمزور تھی۔ اور مدینہ میں وباء عام تھی۔ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو میں سے ایک چیز کے انتخاب کا اختیار دیا گیا۔ تو آپ نے اس وقت بخار کو چن لیا ؛ کیونکہ غالباً اس سے موت بہت کم واقع ہوتی ہے بنسبت طاعون کے۔کیونکہ اس وقت آپ کو کفار کے ساتھ جہاد کے لیے ہر طرح کی ضرورت تھی۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بخار سے ان کے جسم کمزور ہو رہے ہیں تو آپ نے دعا فرمائی اور یہ بخار جحفہ منتقل ہو گیا ‘‘[ انظر: فتح الباري لابن حجر (10/191).]
[نوٹ:]حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نے فرمایا : ’’ مدینہ کے دروازوں پر فرشتے ہوں گے وہاں نہ تو طاعون اور نہ دجال داخل ہوگا۔[صحیح بخاری:ج 1:ح 1806 ]
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں طاعون کا ذکر چھڑ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔ [مسند احمد:ج1:ح 1409 ](اضافہ از مترجم)
(36): باب:مرض کے متعدی ہونے اور بدشگونی کی نفی
اور الو کی نحوست؛ صفر کا خالی ہونا ؛ ستاروں کی تاثیر ؛ کچھ معنی نہیں رکھتی۔
837۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ مرض کا دوسرے کو لگنا اور صفر اور ہامہ کوئی چیز نہیں ۔‘‘
|