Maktaba Wahhabi

399 - 432
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پچھنے لگواتے تھے اور کسی کی اجرت میں کمی نہ کرتے تھے۔‘‘ متفق عليه: رواه البخاري في الإجارة (2280)، ومسلم في السلام (1577: 77). (12): باب : داغنے کی کراہت کے بیان میں 775۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی میں بھلائی ہو تو پچھنے لگوانے یا شہد پینے یا آگ سے داغ لگو انے میں ہے جبکہ بیماری کے موافق ہو اور میں داغ لگوانے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ متفق عليه: رواه البخاري في الطب (5702)، ومسلم في السلام (2205: 71). 776۔حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (زخم کو بند کرنے لئے) داغ لگانے سے منع فرمایا؛مگر ہم نے داغ لگایا تو نہ ہی ہمیں فائدہ ہوا اور نہ ہی ہم کامیاب ہوئے۔‘‘ صحيح: رواه أبو داود (3865)، وأحمد (19831، 19989) والترمذي (2049)، وابن ماجه (3490)، وصحّحه ابن حبان (6081)، والحاكم (4/213). یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داغ دینے سے منع کرنے کے بعد بھی داغ دیا تو نہ انہیں صحت ہوئی نہ افاقہ ۔(مترجم) علا ج کے لیے آگ سے داغ لگوانے کی ضرورت انسان کو پیش آسکتی ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوجائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کامیاب نہ ہو۔ اگر کامیاب ہونے کی امید غالب ہو تو پھر ایسا کرنا جائز ہے۔ اور اگر ہلاک ہونے یا پھر کامیاب نہ ہونے کے احتمال ہوں تو پھر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد اس نہی کو بالخصوص حضرت عمران کے ساتھ محمول سمجھا جائے گا۔ کیونکہ ان کی بیماری کی علت ظاہر تھی جس سے مرض کا خطرہ بڑھنے کے امکان تھے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داغ لگوانے سے منع فرمایا۔ 777۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’ کچھ لوگ آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ایک ساتھی کو
Flag Counter