لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ صحابہ کو یہ امر بہت گراں گزرا؛ اور انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! (وہ ایک آدمی) ہم میں سے کون ہوگا؟
آپ نے فرمایا :’’ تمہیں خوش خبری ہو کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار اور تم میں ایک فرد ہوگا۔‘‘
پھر فرمایا :’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کے چوتھائی ہو گے۔‘‘ ہم نے الحمد للہ اور اللہ اکبر کہا ۔
پھر فرمایا:’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کے تہائی ہو گے۔ہم نے الحمد للہ اور اللہ اکبر کہا ۔
پھر آپ نے فرمایا:’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں امید کرتا ہوں کہ تم نصف اہل جنت ہو گے۔ دیگر امتوں کے اعتبار سے تمہاری مثال ایسی ہے، جیسے سفید بال سیاہ بیل کی کھال میں یا سفید داغ جو گدھے کی اگلی ران میں ہوتا ہے۔‘‘
متفق عليه: رواه البخاري في الرقاق (6530)، ومسلم في الإيمان (222: 379).
(28): باب : تعجب کے وقت سبحان الله کہنا
536۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا :
’’ ایک شخص ایک بیل پر سوار تھا؛ تو وہ بیل اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ:
’’ میں اس کام کے لئے نہیں پیدا کیا گیا میں تو کھیتی کیلئے پیدا کیا گیا ہوں ۔‘‘
لوگوں نے حیرانگی اور گھبراہٹ میں سُبْحَانَ اللَّهِ کہا اور کہا کیا بیل بھی بولتا ہے؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تو اس بات پر یقین کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی یقین کرتے ہیں ۔‘‘
متفق عليه: رواه البخاري في فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم (3663) ومسلم في فضائل الصحابة (2388)
|