’’ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے ننانوے آدمیوں کو قتل کردیا تھا پھر اس کی بابت مسئلہ دریافت کرنے کو نکلا پہلے ایک درویش کے پاس آیا؛ اور اس سے دریافت کیا کہ کیا (میری) توبہ قبول ہے؟
درویش نے کہا : نہیں ۔اس نے اس درویش کو بھی قتل کردیا ۔
پھر اس نے دوبارہ پوچھنا شروع کردیا۔ اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کی طرف نکلا۔ (جس میں نیک لوگ رہتے تھے) ؛جب اس نے کچھ راستہ طے کیا تو اسے موت نے گھیر لیا ۔پس اس نے سینہ کے بل سرک کر اپنی آبادی سے اپنے آپ کو دور کرلیا؛ پھر مر گیا۔ تو رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں کے درمیان اس کے بارے میں جھگڑا ہوا۔اسی اثناء میں اللہ نے اس بستی کو (جہاں جا کر وہ توبہ کرنا چاہتا تھا) یہ حکم دیا کہ اے بستی (اس سے) نزدیک ہوجا ؛اور اس بستی کو (جہاں اس نے گناہ کا ارتکاب کیا تھا) یہ حکم دیا کہ تو دور ہوجا ۔اور (فرشتوں کو حکم دیا کہ) دونوں بستیوں کی مسافت ناپو (دیکھو یہ مردہ کس بستی کے قریب ہے چنانچہ ) وہ مردہ اس بستی سے (جہاں وہ توبہ کرنے جا رہا تھا) بالشت بھر نزدیک تھی؛ تو اللہ نے اسے بخش دیا۔‘‘
متفق عليه: رواه البخاري في الأنبياء (3470)، ومسلم في التوبة والاستغفار (2766: 48).
(18): باب:اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ قبول کرتے ہیں :
جب وہ مخلص ہو؛ بھلے اس سے بار بار گناہ کا ارتکاب ہوجائے ۔
659۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب العزت سے حکایت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ کسی بندے نے گناہ کیا؛ پھر عرض کیا:’’ اے اللہ میرے گناہ کو معاف فرما دے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ میرے بندے نے گناہ کیا؛ پس وہ جانتا ہے کہ اس کا رب گناہ کو معاف بھی فرماتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے ۔
|