جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
﴿اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَہْفِ وَالرَّقِيْمِ۰ۙ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَبًا۹ ﴾ [ الكهف ]
’’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ غار والوں اور کتبہ و الوں کا معاملہ ہماری نشانیوں میں سے کوئی بڑی عجیب نشانی تھا ۔‘‘
اس لیے کہ اس سے مراد پتھر کی وہ تختیاں ہیں جن پر اصحاب الکہف کے قصے لکھے ہوئے تھے۔ او رپھر یہ تختیاں اس غار کے دھانے پر رکھ دی گئی تھیں۔ یہاں پر حدیث میں مذکور رقیم اس وادی کا نام ہے جس میں وہ غار تھا۔
(3): باب :اللہ کی بارگاہ میں زندہ بزرگ کی دعا کا وسیلہ
اختیار کرنے کا بیان
199۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
’’ایک سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگ قحط میں مبتلا ہوئے۔ جمعہ کے دننبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ پڑھنے کے دوران میں ایک اعرابی کھڑا ہوا اور کہا :
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مال تباہ ہوگیا، بچے بھوکے مر گئے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ہمارے حق میں دعا کیجئے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آتا تھا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے بھی نہیں تھے کہ پہاڑوں کی طرح بادل کے بڑے بڑے ٹکڑے امڈ آئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے ابھی اترے بھی نہیں تھے کہ بارش کے قطرے آپ کی داڑھی سے گر رہے تھے۔
|