بارش ہوتی رہی،وہ دن؛ اس کا اگلا دن ؛اس کے بعد کا دن۔حتی کہ اگلے جمعہ کے دن تک۔ تو وہی اعرابی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور کہا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکانات گر گئے، مال ڈوب گیا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اللہ سے دعا کیجئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا:((اللّٰهمَّ حَوَالَيْنَا ولا علينا)) ۔
’’ اے میرے اللہ ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہ برسا ۔‘‘
اور بدلی کے جس طرف اشارہ کرتے تھے، وہ بدلی ہٹ جاتی اور مدینہ ایک حوض کی طرح ہوگیا اور وادی قناۃ ایک مہینہ تک بہتا رہا اور جو شخص بھی کسی علاقے سے آتا تو اس پر بارش کا حال بیان کرتا۔
متفق عليه: رواه البخاري في الاستسقاء (1033)، ومسلم في الاستسقاء (897/9).
200۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
’’ جب لوگ قحط میں مبتلا ہوتے توحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے :
(( اللّٰهم إنا كنا نَتَوَسَّلُ إليك بنبينا فَتَسْقِينا وإنا نَتَوَسَّلُ إليك بِعَمِّ نبيِّنا فاسْقِنا .))
’’ اے اللہ ہم تیرے پاس تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا وسیلہ لے کر آیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (عباس رضی اللہ عنہ) کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ہمیں سیراب کر۔‘‘
راوی کا بیان ہے :’’ لوگ سیراب کئے جاتے یعنی بارش ہوجاتی۔‘‘
[ رواه البخاري في الاستسقاء (1010).]
آپ کا فرمان : «إنا كنا نتوسل إليك بنبينا» ہم تیری بارگاہ میں تیرے نبی کا وسیلہ دیتے تھے۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرواتے تھے۔
اس کے بعد بھی عمل اسی پر رہا ہے۔ ابن حجر نے یزید بن اسود الجرشی کی سوانح میں الإصابة (9434/ القسم الثالث) میں کہا ہے : ابو زرعہ دمشقی اور یعقوب بن سنان نے اپنی اپنی تواریخ میں صحیح سند کے ساتھ سلیم بن عامر سے
|