نقل کیا ہے۔ فرمایا: بیشک لوگ دمشق میں قحط کا شکار ہوگئے۔ تو حضرت امیر معاویہ یزید بن اسود کو لیکرنماز استسقاء کے لیے نکلے؛ تو بارش برس گئی ۔‘‘
201 ۔حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’ ایک نابینا شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : ’’میرے لئے عافیت کی دعا کریں ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر چاہو تو میں دعا کرتا ہوں اور اگر چاہو تو اسی (نابینا پن) پر صبر کرو۔ اور یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔‘‘
اس نے عرض کیا: آپ میرے دعا ہی کر دیجئے۔‘‘
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کرنے کے بعد اس طرح دعا کرو:
(( اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی لِيَ اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ ))
’’اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے نبی کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں ۔! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں رحمت والےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف توجہ کی اپنی اس حاجت کے سلسلہ میں تاکہ یہ حاجت پوری ہوجائے۔ اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش میرے بارے میں قبول فرما لیجئے ۔‘‘
صحيح: رواه الترمذي (3578)، وابن ماجه (1385)، وأحمد (17240)، وصحّحه ابن خزيمة (1219)، والحاكم (1/519).
اس حدیث مبارک میں دلیل ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حیات تھے تو مسلمان کے لیے جائز تھا کہ آپ کی دعا کا وسیلہ اختیار کرتا۔ جبکہ آپ کی وفات کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی جاہ کا وسیلہ دینا جائز نہیں ۔ لیکن زندہ بزرگان سے دعا کروانے کا وسیلہ اختیار کا جائزہے۔
اس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایسے ہی پیش آیا تھا۔ اس حدیث میں تقدیر عبارت ہے۔ اگر تم چاہو تو میں اس دعا کو مؤخر کردوں ؛ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ تو نابینا نے کہا:
|