اور وہ اپنے چہرہ سے خون پونچھتے جا رہے تھے اور فرماتے تھے :«اللّٰهم اغْفِرْ لقومي فإنهم لا يَعْلَمُون».
’’اے میرے رب میری قوم کی بخشش فرمانا وہ جانتے نہیں ۔‘‘
متفق عليه: رواه البخاري في أحاديث الأنبياء (3477) ومسلم في الجهاد (1792).
189۔حضرت سہل بن سعد الساعدي رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن فرمایا:
(( اللّٰهم اغْفِرْ لقومي فإنهم لا يَعْلَمُونَ ))
’’اے میرے رب! میری قوم کی بخشش فرمانا وہ جانتے نہیں ۔‘‘
حسن: رواه الفسوي في المعرفة والتاريخ (1/338)، والطبراني في الكبير (6/146)، وابن حبان (973). وقال الهيثمي في المجمع (6/117): «رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح».
آپ کا فرمان : «اغفر لقومي»میری قوم کو بخش دے! یعنی ان سے جو کچھ گناہ میرے حق میں ہوئے ہیں ۔ اس میں قوم کے مشرکین کے لیے دعا نہیں ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۱۱۳﴾ [ التوبة].
’’ نبی اور ایمان والوں کو لائق نہیں کہ مشرکوں کی بخشش چاہیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ انہیں کھل چکا کہ وہ دوزخی ہیں ۔‘‘
آپ کا فرمان : ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ ﴾ یعنی کہ وہ لوگ شرک پر مرے ہیں ۔ جب کہ ان کی زندگی میں ان کو ہدایت ملنے کی دعا کی جاسکتی ہے۔
(22):باب :مشرکوں کافروں اور ظالموں پر بد دعا کا بیان
190۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے کہ آخری رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم
|