فرماتے ہیں کہ :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے لوٹتے تو یہ دعا پڑھتے:
(( آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ))
’’ہم سفر سے سلامتی کے ساتھ لوٹنے والے، توبہ کرنے والے اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی تعریف کرنے والے ہیں ۔‘‘
حسن: رواه الترمذي (3440)، وأحمد (18476) والنسائي في عمل اليوم والليلة (550)، وابن حبان (2711).
(3): باب: جب سواری لڑکھڑا جائے تو کیا کہیں
417۔حضرت رجل رضی اللہ عنہ سے روایت ہےفرماتے ہیں :
’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا تھا کہ آپ کی سواری لڑکھڑا گئی۔ تو میں نے کہا کہ:’’تعس الشيطان ‘‘ بیڑا غرق ہو شیطان کا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: یہ مت کہو : ’’تعس الشيطان ‘‘شیطان کا بڑا غرق ہو۔‘‘ کیونکہ جب تم یہ کہتے ہو تو شیطان اس پر پھولے نہیں سماتا؛ یہاں تک کہ پھول کر ایک گھر کی مانند ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری قوت تسلیم کرلی۔ بلکہ کہو: بِسْمِ اللَّهِ ۔کیونکہ جب تم بِسْمِ اللَّهِ کہتے ہو تو وہ اتنا ذلیل ہوجاتا ہے کہ مکھی کے برابر چھوٹا ہوجاتا ہے۔‘‘[صحيح: رواه أبوداود (4982)، والنسائي في عمل اليوم والليلة (554).]
(4): باب :مسافر کو الوداع کہتے ہوئے کیا کہیں
418۔ حضرت قزعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا میں تجھے رخصت کروں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رخصت فرمایا تھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا تھا) :
((اَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلِکَ))۔
|