Maktaba Wahhabi

80 - 432
میں چھپا لیا۔‘‘ صحيح: رواه أحمد (6590) واللفظ له والبخاري في الأدب المفرد (626)، وصحّحه ابن حبان (986). (7):باب: دعا میں سجع کی مذمت 149۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ؛انہوں نے فرمایا: ’’ ہر جمعہ کو ایک بار وعظ کہو اگر اس سے زیادہ چاہو تو دو بار اور اس سے زیادہ چاہو تو تین بار۔ لیکن لوگوں کو اس قرآن سے تھکا نہ دو۔ اور میں تمہیں ایسا کرتا ہوا نہ پاؤں کہ تم کسی جماعت کے پاس آؤ جو اپنی گفتگو میں مشغول ہوں ؛ اور تم ان کی بات کاٹ کر انہیں وعظ کہنے لگو جس سے وہ پریشان ہوجائیں ؛ بلکہ خاموش رہو۔ اور جب وہ تم سے وعظ کہنے کو کہیں اور اس کی خواہش ظاہر کریں تو وعظ کہو لیکن دعاء میں قافیہ آرائی سے بچو، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیکھا ہے کہ اسی طرح کرتے تھے، یعنی اس سے اجتناب ہی کرتے تھے۔‘‘ [صحيح: رواه البخاري في الدعوات (6337).] اہل علم کہتے ہیں : دعا میں مذموم مسجع وہ ہے جس کے لیے تکلف برتا جائے۔ کیونکہ اس سے خشوع و خضوع اوراخلاص ختم ہو جاتا ہے اور دل گریہ و زاری اور افتقار سے خالی ہو جاتا ہے۔ ہاں جو مسجع کلام بلا تکلف آجائے جس کے لیے فصاحت و بلاغت میں زیادہ سوچ و بچار کرنے کی ضرورت نہ پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ انظر: شرح النووي على صحيح مسلم (17/41). (8): باب:مسلمان کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلد بازی نہ کرے یا گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ مانگے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶﴾ [ البقرة: 186].
Flag Counter