316۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب کوئی شخص کسی بیمار کی عیادت کے لئے جائے تو چاہئے یوں کہے :
(( اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَکَ يَنْکَأُ لَکَ عَدُوًّا أَوْ يَمْشِي لَکَ إِلَی جَنَازَةٍ ))
’’ اے اللہ اپنے بندے کو شفا عطا فرماتا کہ وہ تیرے دشمن کو زخمی کرے تیری رضا کی خاطر اور تاکہ کسی جنازہ کے ساتھ چلے تیری خوشنودی کی خاطر۔‘‘
حسن: رواه أبو داود (3107) واللفظ له ، وابن حبان (2974)، والحاكم (1/344، 549)
حاکم اور ابن حبان میں :’’ کسی جنازہ کے ساتھ چلے .....‘‘کے بجائے : ’’نماز کے لیے چلے کے الفاظ ہیں ۔‘‘
(2):باب :مرنے والے کو توحید کی تلقین
317۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَقِّنُوْا مَوْتَاكُمْ: لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ .))
’’ اپنے مرنے والوں کو (( لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ )) کی تلقین کرو۔‘‘
[صحيح: رواه مسلم في الجنائز (916).]
آپ کا فرمان : «لقّنوا موتاكم» اپنے مرنے والوں کو تلقین کرو۔‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ جس کی موت کا وقت آ پہنچا ہو۔نہ کہ جو مر گئے ہوں ۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا میں آخری کلام لا إله إلا اللّٰه ہو۔
نوٹ: " 'تلقین" کے معنی پڑھنا ہیں تلقین سے مراد قریب المرگ کے رو برو کلمہ لا إله إلا اللّٰه پڑھناہے، تاکہ وہ بھی سن کر پڑھے۔ مگر قریب المرگ سے نہ کہا جائے یہ تم بھی پڑھو مبادا کہ شدت مرض یا بدحواسی کے سبب اس کے منہ سے انکار نکل جائے۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ تلقین مستحب ہے۔ مترجم۔
318۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اپنے مرنے والوں کو (( لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ )) کی تلقین کرو۔‘‘
[صحيح: رواه مسلم في الجنائز (917).]اسے ابن حبان نے بھی اپنی صحیح (3004)میں روا یت کیا ہے ؛ اس کے لفظ یہ ہیں : ’’ اپنے مرنے والوں کو (( لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ )) کی تلقین کرو۔پس بیشک جس کا مرتے وقت دنیا میں آخری کلام یہ کلمہ ہو گا وہ ایک نہ ایک وقت جنت میں چلا جائے گا؛ اگرچہ اس سے پہلے کوئی تکلیف بھی پہنچے۔‘‘اس کی سند صحیح ہے۔
319۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں : رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|