ہو۔ کیونکہ اگر اسے بھی یہ بیماری لگ گئے تو وہ کہے گا: ’’ کاش ! اگر میں اس بستی میں نہ آتا تو مجھے یہ تکلیف نہ اٹھانا پڑتی؛ یہ تمام امور تقدیر پر ایمان کے منافی ہیں ۔ اس لیے شریعت نے یہ احکام جاری کئے ہیں ۔
830۔حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں :
’’ ہم بنو ثعلبہ کے بارہ افراد کے ساتھ نکلے۔ ہمیں یہ اطلاع ملی تھی کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فلاں جگہ پر تشریف لائے ہیں ۔ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ اور ہم نے سنا آپ فرما رہے تھے : ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ میری امت " طعن اور طاعون " سے فناء ہوگی۔‘‘
ہم نے پوچھا: یا ! طعن کا معنی تو ہم نے سمجھ لیا (کہ نیزوں سے مارنا) طاعون سے کیا مراد ہے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تمہارے دشمن جنات کے کچوکے اور دونوں صورتوں میں شہادت ہے۔‘‘
[حسن: رواه أحمد (19744) والبيهقي في دلائل النبوة (6/384) واللفظ له.]
831۔حضرت معاذہ بنت عبداللہ عدویہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ :
’’ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی ؛تو انہوں نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’ میری امت نیزہ بازی اور طاعون سے ہی ہلاک ہوگی۔‘‘
میں نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نیزہ بازی کا مطلب تو ہم سمجھ گئے، یہ طاعون سے کیا مراد ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ ایک گلٹی ہوتی ہے جو اونٹ کی گلٹی کے مشابہ ہوتی ہے، اس میں ثابت قدم رہنے والا شہید کی طرح ہوگا اور اس سے راہ فرار اختیار کرنے والا میدان جنگ سے بھاگنے والے کی طرح ہوگا۔‘‘[حسن: رواه أحمد (25118).]
832۔حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت ابو بردہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
’’ اے اللہ! میری امت کی موت اپنے راستے میں نیزوں اور طاعون کی حالت میں
|