’’ جو شخص تمیمہ (تعویذ) لٹکائے، اللہ اس کے ارادے کو مکمل نہ فرمائے اور جو گھونگھا ؛ لٹکائے، اللہ اسے سکون عطاء نہ فرمائے۔‘‘
حسن: رواه أحمد (17404)، وأبو يعلى (1759)، والطبراني في الكبير (17/297)، وابن حبان (6086)، والحاكم (4/216).
آپ کا فرمان : «ودعة» سمندر پار سے لائی جانے والی سفید چیز ہے؛ اس میں گھٹلی کی طرح کا چیر ہوتا ہے؛ اور وہ نظر بد سے بچنے کے لیے بچوں کے گلے میں لٹکائی جاتی ہے۔‘‘
اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ اگر تعویذ قرآنی آیات یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ماثور دعاؤوں پر مشتمل ہو ؛ تو کیا اس کا لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟۔ اس میں راجح یہی ہے کہ سد ذرائع کے طور پر ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ مزید برآں ایسا کرنے میں قرآن کی بے ادبی بھی ہے۔ سنت طریقہ قرآن حکیم کی تلاوت کرنا اور اس میں تدبر کرنا ہے نہ کہ گردن میں لٹکانا۔
* * *
|