حسن: رواه أبو داود (3883) واللفظ له ، وابن ماجه (3530)، وأحمد (3615).
اورحاکم (4/417) نے ان الفاظ میں روایت کیا ہے:’’ بیشک تعویذ، گنڈے تَوِلہ (منتر) وغیرہ سب شرک ہیں ‘‘ کہتےہیں میں نے پوچھا: ما تَوِلہ ؟یہ (منتر) کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا : جو مردوں کے دلوں میں محبت کو بر انگیختہ کرتا ہے۔‘‘
آپ کا فرمان : «الرُّقَى»’’دم کرنا ‘‘ اس سے یہاں پر وہ دم ہے جو بتوں اور شیاطین کا نام لے کر او رمجہول کلمات پڑھ کر کیا جاتا تھا۔ لیکن جو کچھ قرآن و حدیث سے ثابت ہے وہ پڑھ کر دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
آپ کا فرمان : «التمائم»: تَميمة،کی جمع ہے:ان سے مراد وہ سیپیاں اور گھونگھے ہیں جو عورتیں بچوں کے گلے میں لٹکاتی ہیں تاکہ نظر بد اور بلاء سے محفوظ رہیں ۔
737۔حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
’’ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (دس آدمیوں کا) ایک وفد حاضر ہوا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے نو آدمیوں کو بیعت کرلیا اور ایک سے ہاتھ روک لیا۔
انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے نو کو بیعت کرلیا اور اس شخص کو چھوڑ دیا؟
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس نے تمائم (ایک قسم کا تعویذ) پہن رکھا ہے۔‘‘
یہ سن کر اس نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس تعویذ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ؛ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی بیعت لے لی اور فرمایا:
((مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ)).
’’ جس شخص نے تعویذ لٹکایا یقیناً اس نے شرک کیا ۔‘‘
حسن: رواه أحمد (17422)، والطبراني في الكبير (17/319-320)، والحاكم (4/219).
738۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
(( مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيمَةً فَلَا أَتَمَّ اللَّهُ لَهُ وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَةً فَلَا وَدَعَ اللَّهُ لَهُ )).
|