اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تم دم کے کلمات میرے سامنے پیش کرو اور ایسے دم میں کوئی حرج نہیں جس میں شرک نہ ہو۔‘‘
[صحيح: رواه مسلم في السلام (2200).]
681۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کرنے سے منع کردیا تھا۔آل عمرو بن حزم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے پاس ایک دم (یعنی وظیفہ یا کچھ کلمات) ہے جس کے ذریعے ہم بچھو کے ڈسنے پر دم کرتے ہیں ‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دم کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
پھر انہوں نے اس دم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میں اس دم کے الفاظ میں کوئی قباحت نہیں پاتا؛ تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ اسے فائدہ پہنچائے۔‘‘
[صحيح: رواه مسلم في السلام (2199: 63).]
682۔حضرت کریب الکندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ حضرت علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑا؛ اور ہم قریش کے ایک شیخ کے پاس چلے گئے جسے ابن ابی حثمہ کہا جاتا تھا۔ وہ ایک ستون سے ٹیک لگائے نماز پڑھ رہا تھا۔ ہم اس کے پاس بیٹھ گئے ۔جب اس نے حضرت علی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا تو آپ کی طرف متوجہ ہوا؛ انہوں نے اس سے کہا : ہم سے اپنی والدہ کی دم والی روایت بیان کریں ۔‘‘
تو اس نے کہا: مجھ سے میری ماں نے بیان کیا کہ وہ عہد جاہلیت میں جھاڑپھونک کیا کرتی تھی۔ جب اسلام آیا تو کہنے لگی: میں اس وقت تک جھاڑ پھونک نہیں کروں گی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں ۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اجازت کی طلبگار ہوئی ؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دیدی؛اور فرمایا: دم کیا کرو جب تک کہ اس میں کوئی شرک نہ ہو۔‘‘
حسن: رواه ابن حبان (6092)، والحاكم (4/57).
|