سے کہا کہ: جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پیس ڈالنا۔ اس کے بعد مجھے (یعنی میری راکھ) ہوا میں اڑا دینا؛ کیوں کہ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قابو پا لے گا تو مجھے ایسا عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہ دیا ہوگا۔‘‘
چنانچہ وہ جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ (اس کی وصیت کے موافق) ایسا ہی کیا گیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس شخص کے جس قدر ذرات تجھ میں ہیں جمع کر۔ زمین نے جمع کر دیئے ۔یکدم وہ شخص صحیح سالم کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ تجھے اس (حرکت) پر جو تو نے کی کس چیز نے برانگیختہ کیا؟
اس نے عرض کیا:’’ رب !تیرے خوف نے۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے اس کو اس وجہ سے بخش دیا۔‘‘
متفق عليه: رواه البخاري في أحاديث الأنبياء (3481) ومسلم في كتاب التوبة (2756-25).
اور ایک روایت میں ہے : ’’ ایک آدمی جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی ؛اپنے اہل خانہ سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا ۔پھر میری آدھی راکھ ہوا میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں بہا دینا ؛ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قابو پا لے ...۔‘‘
634۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’ ایک شخص کو موت آئی ؛جب اس کی زندگی کی کچھ امید نہ رہی تو اس نے اپنے گھر والوں کو وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو میرے واسطے بہت سی لکڑیاں جمع کر کے آگ روشن کرنا اور اس کے اندر مجھے ڈال دینا ۔ حتی کہ جب آگ میرے گوشت کو کھا لے اور میری ہڈیوں تک پہنچ جائے تو تم ان ہڈیوں کو لے کر پیس ڈالنا۔ پھر مجھے (یعنی میری پسی ہوئی ہڈیوں کو) کسی گرم یا (یہ کہا) کسی تیز ہوا چلنے والے دن دریا میں ڈال دینا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا) پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو جمع کر کے فرمایا : تو نے ایساکیوں کیا؟ اس نے عرض کیا:’’ تیرے خوف سے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔‘‘
[رواه البخاري في أحاديث الأنبياء (3479).]
|