الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہے؛ پھر کہے:’’ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ؛یا دعا کرے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ اگر اس نے وضو کیا [اور نماز پڑھی ]تو اس کی نماز مقبول ہوتی ہے ۔‘‘[صحيح: رواه البخاري في التهجد (1154).]
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : آپ کا فرمان: تعارّ(رات کو اٹھے) یعنی نیند سے گھبرا کربیدار ہو۔
292۔ حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اپنی نماز شروع فرماتے تو کس طرح شروع کرتے ؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب بھی رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز شروع فرماتے تو یہ دعا پڑھتے:
(( اللّٰهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِـما اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ)).
’’ یا اللہ ! جبرائیل اور میکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! ظاہر اور باطن کے جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں مجھے سیدھا راستہ دکھا اور اے اللہ حق کی جن باتوں میں اختلاف ہوگیا ہے تو مجھے ان میں سیدھے راستے پر رکھ بےشک تو ہی جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔‘‘[صحيح: رواه مسلم في صلاة المسافرين (770).]
293۔ حضرت عاصم بن حمید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے نوافل کس دعا سے شروع فرماتے تھے؟
|