گا۔ (اور عامر کو کہا): تو نے بارک اللہ (یعنی اللہ برکت دے )کیوں نہیں کہا۔نظر لگنا سچ ہے سہل کے لئے وضو کر۔‘‘
پھر عامر بن ربیعہ نے سہل کے واسطے وضو کیا ؛ تو سہل اچھے ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تشریف لے گئے۔‘‘
[صحيح: رواه مالك في العين (1) والنسائي في الكبرى (7570)، وصحّحه ابن حبان (6105).]
711۔ ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ عامر بن ربیعہ نے سہل بن حنیف کو نہاتے ہوئے دیکھ لیا ؛تو کہا میں نے آپ کا سا کوئی آدمی نہیں دیکھا نہ کسی پردہ نشین بالکل باہر نہ نکلنے والی عورت کی ایسی کھال دیکھی ۔یہ کہتے ہی سہل اپنی جگہ پر گر پڑے ۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہ کیا اور کہا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکچھ سہل بن حنیف کی خبر بھی ہے ؛ قسم اللہ کی !وہ اپنا سر بھی نہیں اٹھاتے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمہاری دانست میں کس نے اس کو نظر لگائی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ عامر بن ربیعہ نے ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ کو بلایا اور اس پر غصے ہوئے اور فرمایا:’’ تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا؛ تو نے بارک اللہ کیوں نہ کہا۔ اب اس کے واسطے غسل کر۔‘‘
عامر نے اپنے منہ اور ہاتھ اور کہنیاں اور گٹھنے اور پاؤں کے کنارے اور تہ بند کے نیچے کاحصہ پانی سے دھو کر اس پانی کو ایک برتن میں جمع کیا ۔پھروہ پانی سہل پر ڈالا گیا سہیل اچھے ہوگئے اور لوگوں کے ساتھ چلے؛ گویا کہ ان پر بیماري کا کوئی اثر ہی نہ تھا۔‘‘
صحيح: رواه مالك في العين (2) والنسائي في الكبرى (7571-7572)، وابن ماجه (3509)، وصحّحه ابن حبان (6106)، والحاكم (3/410-411).
|