Maktaba Wahhabi

53 - 382
جمعہ پڑھا رہا ہے۔ میرا بڑا بیٹا بھی صاحب علم ہے۔ اس نے تمام کتابیں مجھ سے جامعہ سلفیہ میں پڑھی ہیں۔ لیکن اس کا المیہ یہ ہوا کہ وہ سکول کا ماسٹر بن گیا۔ جو سکول ماسٹر بن جائے اس کو علم کی اشاعت و تبلیغ کا وہ ذوق و شوق نہیں رہتا جو ہونا چاہیے۔ میری بڑی بیٹی گاؤں میں دین کا بہت کام کررہی ہے۔ بہت بڑا مدرسہ ہے جس میں ۲۰۰ بچیاں زیر تعلیم ہیں، جو قرآن ، تجوید، حفظ اور دینی کتابوں کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ہمارے گاؤں میں اہل حدیث مسلک کی ۶ مسجدیں ہیں۔ [1] مگر جمعہ ایک جگہ ہوتا ہے۔ جہاں میرا بیٹا پڑھاتا ہے۔ لوگوں کا جذبہ یہ ہے کہ اگر میں چندے کا اعلان کروں تو لاکھوں روپے جمع ہو جاتے ہیں۔ باقی بیٹیاں بھی اپنی اپنی جگہ دین کا کام کررہی ہیں۔ میری آخری اور پہلی خواہش یہی ہے کہ میری اولاد دین پر کاربند رہے۔ اگر انسان دنیا کے پیچھے لگ جائے تو دنیا فتنہ بن جاتی ہے۔ علماء میں بھی دیکھا ہے جہاں دنیا آئی وہاں سے دین رخصت ہو گیا۔جنھوں نے دنیا کی پرواہ نہیں کی اللہ نے ان کو دنیا بھی اور دین بھی دے دیا۔ میں نے پوری زندگی میں فاقہ نہیں دیکھا۔ گاؤں میں تقریباً ۳۰ ایکڑ زمین ہے اور بہت اچھی گزر بسر ہو رہی ہے۔ یہ سب دین کی برکت کا نتیجہ ہے۔ ضیائے حدیث: مدارس میں تعلیم اصلاحات کے لیے آپ کی کیا تجاویز ہیں، پاکستان میں مسلک اہل حدیث کے مدارس میں طلباء کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے اور تعلیم کا معیار بھی گرتا جا رہا ہے؟ حافظ صاحب: اصل بات یہ ہے کہ خلوص کا فقدان ہے۔ ہم میں بھی ، مدرسین میں بھی اور جو مہتمم ہیں مدارس کے ان میں بھی اور طلباء میں بھی، دیگر مذاہب میں ایسا نہیں، ان کا ایک نظم ہے اس نظم کے تحت چلتے ہیں۔ ضیائے حدیث: حافظ صاحب! آپ نے فتویٰ نویسی کا کام کب شروع کیا تھا؟ حافظ صاحب: فتویٰ نویسی کا کام ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث میں ۱۹۷۰ء کے بعد شروع کیا تھا۔ ۱۹۹۰ء کے بعد ہفت روزہ الاعتصام میں میرے فتاویٰ چھپتے رہے ہیں۔ فتاویٰ کی جلد نمبر ۳ ، ۴، تیاری کے مراحل میں ہیں۔ ضیائے حدیث: مدارس میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ حافظ صاحب: دینی علوم کے ساتھ عصری علوم نہیں ہونے چاہئیں۔ اس لیے کہ یہ فتنہ ہے۔ ہمارے زمانے میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کے پڑھانے کا تصور بھی نہ تھا۔ نہ ہی استاد پڑھنے دیتے تھے ۔ وہ روکتے اور کہتے تھے:’’ پہلے دین پڑھو، باقی سب اس کے بعد میں ہے۔‘‘ اور میں نے خود ایم اے عربی، و اسلامیات بعد میں کیا۔
Flag Counter