Maktaba Wahhabi

333 - 382
(( إِنَّ اللّٰهِ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَہَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ قَالَ قَتَادَۃُ: إِذَا طَلَّقَ فِی نَفْسِہِ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ)) [1] ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے میری امت کی حدیث النفس سے درگزر فرمائی ہے جب تک اس کے مقتضی کے مطابق عمل یا کلام نہ کرے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اکیلی نیت مؤثر نہیں جب تک اس کے ساتھ کلام یا فعل نہ ملے۔ اصلاً کنائی الفاظ میں کلام کو مؤثر بنانے کے لیے نیت اور کلام کا ربط ضروری ہے۔ انفکاک کی صورت میں مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ حنفی فقہ ہدایہ وغیرہ میں اس بات کی بھی تصریح موجود ہے کہ دلالت ِ حال یا قرینہ حال طلاق کے وقوع پر دال ہو، تو اس وقت خاوند کے دعوے کو درخور اعتناء نہیں سمجھا جائے گا۔[2] مثلاً زوجین میں طلاق کے مذاکرات جاری تھے۔ اس اثناء میں خاوند نے کہا میں نے تجھے چھوڑ دیا تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ اگرچہ خاوند انکاری ہو کہ میرا طلاق کا ارادہ نہیں تھا۔ موجودہ حالت میں لفظ ’’بگڑ‘‘ بھی اس بات کی تصدیق کررہا ہے کہ شاید خاوند نے طلاق کے مذاکرات کے دوران یہ الفاظ کہے ہوں۔ اگر واقعہ یہی ہے تو حنفیہ کے نزدیک طلاق واقع ہو چکی لیکن دیگر فقہاء محدثین امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک نیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ’’صحیح بخاری‘‘کے ترجمۃ الباب میں فرماتے ہیں: (( أَو مَا عنی بِہِ الطَّلَاقَ فَہُوَ عَلَی نِیَّتِہِ۔)) [3] لہٰذا ان کے نزدیک مذکورہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔ مجھے بھی حدیث ’اِنَّمَا الاَْعْمَالُ بِالنِِّیَّاتِ[4] کی بنا پر راجح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے۔لہٰذا محترمہ اگر آپ کے خاوند عبد اللہ کا بایں الفاظ نطق کہ میں نے تمھیں چھوڑ دیا، چھوڑ دیا، سے مقصود طلاق نہیں تو وہ واقع نہیں ہوئی باقاعدہ اپنے شوہر کی زوجیت میں پہلے کی طرح موجود ہیں۔ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَ عِلْمُہُ اَتَمُّ۔) ’’ اب اس گھر سے تیرا تعلق ختم ہو چکا ہے۔‘‘ کہنے کی شرعی حیثیت؟ سوال : جھگڑے کی صورت میں ایک عورت قرآنِ مجید اٹھا کر یہ کہتی ہے کہ میں نے اس شوہر کے گھر نہیں بسنا اور
Flag Counter