Maktaba Wahhabi

353 - 382
جواب : اندریں صورت مرد اور عورت کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو شرعاً اجازت ہے۔ کیا پنچایت خلع کا فیصلہ دے سکتی ہے؟ سوال : میری شادی کو تقریباً دو سال ہو چکے ہیں۔ میرا خاوند نکھٹو اور آوارہ قسم کا آدمی ہے جب کہ ساس ایک بدکار عورت ہے۔ وہ مجھے بھی بدکاری پر لگانا چاہتی ہے۔ میں چونکہ اس کی یہ خواہش پوری نہیں کررہی اس لیے اس نے مجھ پر بہت سے ظلم کیے ہیں۔ خطرناک قسم کے انجکشن لگوا کر میرا خون جلوا دیا۔ میں قریب المرگ تھی کہ میری والدہ نے ذاتی محنت مزدوری سے میرا علاج کروایا… میرے ہاں پیدائش کی امید تھی تو اس نے انجکشن لگوا کر حمل ضائع کروادیا… اب مجھے ان لوگوں سے ان کے بدکار اور آوارہ ہونے کی وجہ سے شدید نفرت ہے اس لیے میں اپنے شوہر سے علیحدگی چاہتی ہوں۔ آپ کتاب و سنت کی روشنی میں فرمائیں کہ اس کا کیا طریقہ کار ہے؟ (عظمیٰ بی بی۔ جوڑے پل لاہور) (۲۰ ستمبر ۲۰۰۲ء) جواب : صورتِ مسئولہ میں عورت کو فسخ ِ نکاح کا اختیار ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَ لَا تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ﴾ (البقرۃ:۲۳۱) ’’یعنی عورتوں کو دکھ دینے کے لیے نہ رکھو۔‘‘ دوسری آیت میں ہے: ﴿فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ ﴾ (البقرۃ:۲۱۹) ’’عورتوں کو اچھے طریقے سے رکھنا ہے یا اچھے طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔‘‘ دو طریق کے علاوہ شریعت میں تیسرا طریق نہیں۔ اگر کوئی تیسرا راستہ اختیار کرے یا تکلیف دینے کی خاطر روک رکھے تو شریعت کی رو سے اس بات کا حق دار نہیں بلکہ وہ ظالم ہے۔ پس عورت کو اختیار ہے کہ ظلم سے بچنے کے لیے اپنا نکاح فسخ کرالے۔ علیحدگی بذریعہ عدالت ہونی چاہیے۔ بوقت ضرورت بذریعہ پنچایت بھی علیحدگی جائز ہے۔ پنچایت خاوند کو مجبور کرے کہ طلاق دے اگر خاوند طلاق نہ دے یا پنچایت میں نہ آئے تو پنچایت شرعی فتوے کی رُو سے عورت کو دوسری جگہ نکاح کی اجازت دے سکتی ہے۔ ’’صحیح البخاری‘‘ بَابُ الْخُلْعَ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ماورائے عدالت بھی خلع کا جواز منقول ہے۔ المغنی میں ہے: (( وَلَا یُفْتَقَرُ الْخُلْعُ إلَی حَاکِمٍ. نَصَّ عَلَیْہِ أَحْمَدُ، فَقَالَ : یَجُوزُ الْخُلْعُ دُونَ السُّلْطَانِ. وَرَوَی الْبُخَارِیُّ ذَلِکَ عَنْ عُمَرَ وَعُثْمَانَ - رَضِیَ اللّٰهُ عَنْہُمَا -وَبِہِ قَالَ شُرَیْحٌ وَالزُّہْرِیُّ،
Flag Counter