Maktaba Wahhabi

319 - 382
نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ پھر قصہ سارہ میں ابراہیم علیہ السلام کا قول ہے۔ ’ھٰذِہِ اُخْتِیْ[1] اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: (( بَابُ إِذَا قَالَ لِامْرَأَتِہِ وَہُوَ مُکْرَہٌ: ہَذِہِ أُخْتِی، فَلاَ شَیْئَ عَلَیْہِ۔ )) (۲) جب طلاق واقع نہیں ہوئی تو زوجین میں تفریق بھی نہیں ہوئی۔ (۳) جب طلاق غیر مؤثر ہے تو رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بیوی بدستور شوہر کی زوجیت میں ہے۔ زبردستی دلائی گئی طلاق کا حکم: سوال : ایک لڑکی جس کی شادی آج سے تین سال قبل ایک لڑکے سے ہوئی۔ لڑکی دو ہفتے لڑکے کے پاس رہی۔ باقی عرصہ اس نے اپنے والدین کے پاس گزارا کیونکہ لڑکی اس لڑکے کے پاس رہنا چاہتی تھی۔ لڑکا طلاق دینے پر رضا مند نہیں تھا۔ لیکن لڑکے کے چچا نے لڑکے سے طلاق دلوا دی۔ اب طلاق ہوئی کو تقریباً بیس دن ہو چکے ہیں اور لڑکی والے لڑکی کی شادی دوسری جگہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا لڑکی طلاق کی عدت گزارے گی یا نہیں؟ مہربانی کر کے قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ (منظور الٰہی) (۲۵ جولائی ۱۹۹۷) جواب : صورتِ مرقومہ میں عورت کے لیے عدت پوری کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ ﴾ (البقرۃ: ۲۲۸) ’’اور طلاق والی عورتیں تین قرو(حیض) تک اپنے تئیں روکے رکھیں۔‘‘ باپ کی جان بچانے کی خاطر بیوی کو طلاق دینے سے واقع ہوگی یا نہیں؟ سوال :محترم جناب شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید کے لڑکے کی بکر کی لڑکی سے منگنی ہوئی۔ زید کی طرف سے نکاح کا مطالبہ ہوا تو بکر نے کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا۔ بعد ازاں زید کا لڑکا سعودی عرب چلا گیا۔ تو ٹیلیفون کے ذریعے نکاح پڑھایا گیا۔ رخصتی لڑکے کے بغیر ہی ہوئی کیونکہ وہ سعودی عرب میں تھا۔ بعد ازاں زید کو بکر کی لڑکی کے کردار میں شک گزرا اور اس نے بکر کو بلا کر براہِ راست لڑکی کی ناگفتہ بہ حالت دکھائی تو بکر نے بات پر پردہ ڈالنے کے لیے طلاق کا مطالبہ کیا۔ زید نے ہر ممکن کوشش کی کہ طلاق تک نوبت نہ آئے لیکن بکر کی جانب سے طلاق کا مطالبہ زور پکڑتا رہا۔
Flag Counter