Maktaba Wahhabi

98 - 382
یعنی ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘ بعض اور احادیث میں ہے کہ ’’ جو عورت اپنا نکاح خود کرے وہ زانیہ ہے۔(مشکوٰۃ باب الولی) غرض ولی کے بغیر نکاح نہیں اور ولی وہی ہوتا ہے جس کو شرع نے ولی بنایا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ سوال کی صورت میں اگر ولی ہوتے ہوئے دوسرے کو ولی بنایا گیا ہے تو نکاح درست نہیں لہٰذا موجودہ صورت میں اگر ولی ہوتے ہوئے دوسرے کو ولی بنایا گیا ہے تو نکاح درست نہیں، لہٰذا موجودہ صورت میں فوراً علیحدگی کرادی جائے۔ بعض ازاں توبہ نصوح کے بعد اور باجازت ولی دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ بچوں کا وجود دوسرے نکاح سے مانع نہیں۔ بیوہ کا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح: سوال : کیا شرعی طور پر کسی بیوہ کو اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی اجازت ہے؟اگر نہیں تو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کا کیا حکم ہو گا؟ قرآن وحدیث کے مطابق فتویٰ عنایت فرمائیں! (شیخ محمد منیر ۔ لاہور) (۱۴ مئی ۲۰۰۰ء) جواب : عورت بیوہ ہو یا کنواری ، ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی۔ حدیث میں ہے: (( لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ)) [1] یعنی ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘ ہاں البتہ اگر اصل ولی اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر رکاوٹ بن رہا ہے تو اس صورت میں اس کی ولایت ٹوٹ جائے گی، کیونکہ حدیث میں ولیٔ خیر خواہ کی شرط آئی ہے۔ جو عورت کا بھلا سوچے نہ خودغرض ہو۔ اگر ایسا ہو تو اس کی جگہ ولیٔ اَبْعَد ( جو اصل ولی کے بعد ولایت کا حق رکھتا ہے) نکاح کی اجازت دے سکتا ہے۔ اگر عورت ولیٔ مرشد (اصل ولی) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ حدیث میں ہے: جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ باطل ہے۔‘‘ ((أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ۔)) [2] ولایت نکاح کے حق دار بالترتیب ملاحظہ فرمائیں۔(۱) باپ (۲) دادا، اوپر تک(۳) بیٹا(۴) پوتا نیچے تک(۵) حقیقی بھائی اور (۶) باپ شریک بھائی۔(۷) پھر ان کی نرینہ اولاد نیچے تک (۸) چچے پھر ان کی نرینہ اولاد نیچے تک پھر (۹) باپ کے چچے اور موالی العتاقہ پھر اس کے قریب ترین عصبہ پھر حق ولایت حاکم ِ وقت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ: ’’المغنی‘‘ ابن قدامہ ، طبع دار عالم الکتب:۹/۳۵۵۔
Flag Counter