Maktaba Wahhabi

284 - 382
ظاہر ہے کہ رجوع اس شئے سے ہو گا جو وقوع پذیر ہو گی۔ مزید آنکہ صاحب قصہ کا بیان ہے: حُسِبَتْ عَلَیَّ بِتَطْلِیقَۃٍ[1] ’’یعنی یہ طلاق شمار میں آئی تھی۔‘‘ اس سے تردد ّ کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ بعض روایات میں ہے: ’لَمْ یَرَہَا شَیْئًا‘ تواس کا جواب امام ابوداؤد نے یوں دیا ہے: رَوَی ہَذَا الْحَدِیثَ عَنْ جَمَاعَۃ، وَالْأَحَادِیثُ کُلُّہَا عَلَی خِلَافِ مَا قَالَ : أَبُوالزُّبَیْرِ ۔ یعنی ’’ اس حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اہل علم کی ایک جماعت نے روایت کیا اور ان کی تمام احادیث ابوالزبیر کے قول( لم یرھا شَیْئًا) کے خلاف ہیں۔‘‘ اور ابن عبد البر نے کہا ابوالزبیر کا قول ’’کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طلاق شمار میں نہیں آئی‘‘ منکرہے ابو الزبیر کے علاوہ کسی نے بیان نہیں کیا۔ پھر فرمایا: (( وَلَیْسَ بِحُجَّۃٍ فِیمَا خَالَفَہُ فِیہِ مِثْلُہُ فَکَیْفَ بِمَنْ ہُوَ أَثْبَتُ مِنْہُ وَلَوْ صَحَّ فَمَعْنَاہُ عِنْدِی وَاللّٰهُ أَعْلَمُ وَلَمْ یَرَہَا شَیْئًا مُسْتَقِیمًا لِکَوْنِہَا لَمْ تَقَعْ عَلَی السُّنَّۃِ وَقَالَ الْخَطَّابِیُّ قَالَ أَہْلُ الْحَدِیثِ لَمْ یَرْوِ أَبُو الزُّبَیْرِ حَدِیثًا أَنْکَرَ مِنْ ہَذَا ۔))[2] اور متعددمجالس میں دی ہوئی طلاق شمار میں آئیں گی اس امر کی واضح دلیل حدیث ابورکانہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( کَیْفَ طَلَّقْتَہَا؟)) قَالَ: طَلَّقْتُہَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: ’فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ ‘ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: ’فَإِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَارْجِعْہَا إِنْ شِئْتَ ۔‘ قَالَ: فَرَجَعَہَا ۔)) [3] ابن القیم’’اعلام الموقعین‘‘ میں فرماتے ہیں: وَقدْ صَحَّ الْاِمَامُ اَحْمَد ھٰذَا الْحَدِیْث وَ حَسَّنَہُ۔ لہٰذا صورتِ مرقومہ میں زوجین میں طلاق حتمی ہے۔ ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾ (البقرۃ:۲۳۰) طلاق لکھنے کے وقت واقع ہوگی یا مطلقہ کو موصول ہونے پر؟ سوال : شوہر اگر اپنی بیوی کو پہلی طلاق ایامِ حیض میں دیتا ہے ۔ ٹھیک ایک ماہ بعد رجوع کر لیتا ہے۔ تین ماہ گزرنے
Flag Counter