Maktaba Wahhabi

62 - 382
انتخابِ رشتہ اور خِطبۃ النکاح اسلام میں ذات پات کی کوئی تقسیم ہے؟ سوال : اسلام میں ذات پات کی کوئی تقسیم ہے؟ جواب : اسلام میں ذاتوں کی تقسیم ان معنوں میں تو موجود ہے کہ آپس میں جان پہچان کا ذریعہ بن سکے لیکن ایسی ذات جو تفریق بین المسلمین کا سبب بنے اس کا وجود نہیں ہے۔ شادی کے لیے رشتے پر رشتے کا سوال کرنا: سوال :کسی شخص کے رشتے کی بات چل رہی ہو ، ابھی رشتہ طے نہ ہوا ہو اور لڑکی والوں نے انکار بھی نہ کیا ہو تو اس صورت میں کوئی دوسرا شخص اسی لڑکی کا رشتہ مانگ سکتا ہے ؟ (سائل) (۲۷ جون۲۰۰۳ء) جواب :لڑکی والوں کا رجحان اگر کسی طرف نہ ہو تو محض رشتہ طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ کسی طرف میلان کے بعد طلب کرنا ناجائز ہے ، جس طرح فاطمہ بنت قیس کے قصے میں اس امر کی نشان دہی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’صحیح مسلم‘‘ وغیرہ۔ باہمی رشتوں کا قیام عقائدی اتفاق اور اخوتِ اسلامی کی بنیاد پر ہونا چاہیے: سوال :( ۱) پیشے کی بناء پر اسلام میں عزت و شرف اور ذلت اور رسوائی ہے؟ (۲) کیا ایک شخص اگر خاندان میں اکیلا اہل حدیث ہوا ہو وہ انتظار کرے کہ اس کے معیار کے لوگوں میں رشتہ کرے۔ کیا رشتہ داری کے لیے برہمن اور اچھوت اور شودر کا تصور اسلام دیتا ہے؟ (۳) اگر یہ سب کچھ اسلام میں نہیں تو اہل حدیثوں میں یہ امراض کیوں ہیں۔ا س کے خلاف تحریک جو کہ صرف اہلحدیثوں کو چلانی چاہیے کیوں نہیں۔ کیوں کہ جب تک معاشرہ میں ذات برادریوں اور پیشوں کا ہندووانہ زہر موجود ہوگا۔ اسلام کا وہ انقلابی اثر نہ ہوگا۔ میں پنجاب اور سندھ کے لوگوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے معاشرت کے لحاظ سے ان میں اور ہندوؤں میں فرق نظر نہیں آتا جب کہ عرب ممالک میں پیشے کو بالکل برا نہیں سمجھا جاتا۔کویت کے سفیر کے نام کے ساتھ النجار(بڑھئی) کا لفظ آتا ہے کئی مشہور لوگوں کے قبیلہ کا نام الحداد(لوہار) ہے۔ مگر وہاں وہ کوئی گھٹیا شمار نہیں ہوتے۔(سید ابرار حسین شاہ۔سوات۔ سرحد) (۴ دسمبر۱۹۹۲ء) جواب :(۱) صرف پیشے کی بنیاد پر کسی کو عرش و تخت پر بٹھا دینا اور دوسرے کو قعرِ مذلت میں ڈال دینا اسلام میں قطعاً
Flag Counter