Maktaba Wahhabi

117 - 382
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ مزنیہ کی بیٹی سے نکاح درست ہے۔ ہاں البتہ اپنے جرم سے توبہ صادقہ کرنی چاہیے۔ (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَ عِلْمُہُ اَتَمُّ۔) آدمی کا اپنی بہو سے زبردستی زنا کرنے سے بیٹے کا نکاح ٹوٹ جائے گا؟ سوال :ایک آدمی نے اپنی حقیقی بہو کے ساتھ زنا کیا۔ اور وہ بھی زبردستی اور اس کے بعد اقرار جرم بھی کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ عورت اپنے خاوند کی ابھی تک بیوی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں؟ اس بارے میں راجح مسلک بیان کریں۔(محمد اختر سلیم۔ ریاض۔ سعودی عرب) (۲۶ نومبر۱۹۹۹ء) جواب :مسئلہ ہذا میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ زنا کے ذریعہ حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ سنن ابن ماجہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے: (( لَا یُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ۔)) [1] ’’یعنی حرام کے ارتکاب سے حلال شئے حرام نہیں ہوتی۔‘‘ اس کی سند کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَ اِسْنَادہُ اَصْلَحُ مِنَ الاَوَّلِ۔)) [2] اور’’صحیح بخاری‘‘کے ترجمۃ الباب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: (( إِذَا زَنَی بِأُخْتِ امْرَأَتِہِ لَمْ تَحْرُمْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ ۔)) ’’یعنی جب کوئی شخص بیوی کی بہن سے زنا کر لے تو زانی پر اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( فَمَذْہَبُ الْجُمْہُورِ لَا تَحْرُمُ إِلَّا بِالْجِمَاعِ مَعَ الْعَقْدِ۔)) (۹/۱۵۷) ’’جمہور کا مسلک یہ ہے کہ عورت اس وقت حرام ہوتی ہے جب جماع عقد کی صورت میں ہو۔‘‘ نیز یہ بھی فرمایا: (( وَأَبَی ذَلِکَ الْجُمْہُورُ وَحُجَّتُہُمْ أَنَّ النِّکَاحَ فِی الشَّرْعِ إِنَّمَا یُطْلَقُ عَلَی الْمَعْقُودِ عَلَیْہَا لَا عَلَی مُجَرَّدِ الْوَطْء ِ وَأَیْضًا فَالزِّنَا لَا صَدَاقَ فِیہِ وَلَا عِدَّۃَ وَلَا مِیرَاثَ۔)) [3]
Flag Counter