Maktaba Wahhabi

251 - 382
ایک مجلس میں اکٹھی دو طلاقیں دینا: سوال : میری شادی ۱۹۹۲ء میں ہوئی اور ۱۹۹۷ء میں ۲ طلاق اکٹھی ایک ہی تاریخ میں اور دوسری ایک ماہ بعد۔ اب میں دوبارہ بیوی بسانا چاہتا ہوں میری ایک بیٹی بھی ہے۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دے کر مشکور فرمائیں۔ کہ کیا دوبارہ نکاح ہو گا ، یا حلالہ ضروری ہے۔(عبدالغفار ولد نظام دین۔ چکوال شہر) (۲۳ اپریل ۱۹۹۹ء) جواب : صورتِ مرقومہ میں دو طلاقیں اکٹھی ایک ہی حکم میں ہیں اور ایک ماہ بعد دوسری طلاق دوسری شمار ہوگی۔ اس لحاظ سے زوجین کی علیحدگی چونکہ طلاقِ رجعی پر ہوئی ہے۔ تو بناء بریں دوبارہ نکاح کا جواز ہے۔ نیز یاد رہے ۔ زبانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حلالہ کا مرتکب لعنتی ہے۔[1] کسی صورت یہ فعل جائز نہیں۔ مذاق کرتے ہوئے طلاق دینا: سوال : ایک حافظ و قاری مولوی صاحب نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور عدت میں رجوع بھی کر لیا۔ پھر والد محترم کی وفات کے بعد حصہ وراثت نہ ملنے پر غصہ میں اپنی بیوی کو مزاحاً اپنے گھر والوں کو ڈرانے کے لیے دوسری طلاق دے دی اور پھر یہ کہہ کر رجوع کر لیا کہ میں نے مذاق کیا ہے میرا ارادہ نہیں تھا۔تیسری مرتبہ بیوی اپنے والدین کے گھر تھی۔ صبح سویرے ٹیلیفون پر انہی حافظ و قاری صاحب نے اسے تیسری طلاق بھی دے دی۔ اب وہ یہ مسئلہ بیان فرما کر رجوع کرنا چاہتا ہے کہ دوسری طلاق ارادہ کے بغیر تھی اور مذاق کیا تھا، وہ طلاق بھی نہیں ہوئی۔ اور تیسری طلاق میں نے اس طہر میں دی ہے جس میں میں نے مجامعت کی ہے۔ یہ طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔ اگر میں جماع نہ کرتا تو طلاق واقع ہو جاتی۔ اور اس مسئلہ پر ان کے پاس گوجرانوالہ کے ایک شیخ الحدیث صاحب کا فتویٰ بھی ہے کہ آخر الذکر دونوں طلاقیں واقع نہیں ہوئیں۔ اب علماء دین قرآن و سنت کے دلائل سے ہمیں اس مسئلہ پر آگاہ کریں۔ ہم اپنی بیٹی اس کے گھر بھیج دیں یا نہیں؟۔(سلطان احمد لاہور) (۱۹ مارچ۱۹۹۹ء) جواب : صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ شوہر و قفہ وقفہ بعد تین طلاقیں مکمل کر چکا ہے لہٰذا اب رجوع کی گنجائش باقی نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾ (البقرۃ: ۲۳۰) شوہر کایہ دعویٰ کہ دوسری طلاق بطورِ تلاعب(مذاق، و دل لگی) دی، اس لیے وہ واقع نہیں ہوئی۔ ناقابلِ تسلیم
Flag Counter