Maktaba Wahhabi

283 - 382
اس طلاق کو صرف ۲۶ (چھبیس) دن گزرے تھے کہ دوسری طلاق بھی بھیج دی اور پھر چھبیس(۲۶) دن بعد تیسری طلاق بھی بھیج دی۔ پھر دو سال خاموشی رہی۔ بعدہٗ (اس کے بعد) زید واپس لوٹ آیا اور مصالحت کی کوشش کی، ہندہ کے بھائیوں کے پس و پیش (بوجہ طلاق) کرنے پر زید نے کہا کہ میں نے تو صرف دو طلاقیں دی تھیں، لہٰذا علمائے کرام سے فتویٰ لینے کے بعد تجدید نکاح کرکے ہندہ کو زید کے ہمراہ بھیج دیا گیا۔ اُدھر ہندہ کا ایک بھائی بھی بیرون ملک سے واپس وطن آیا اور آتے ہی تین طلاق کا تحریری ثبوت پیش کردیا جس کے نتیجہ میں ہندہ اب پھر میکے گھر آگئی۔ مگر کہتی ہے کہ زید چونکہ باہر تھا اسے معلوم نہ تھا اور جب اُس نے پہلی طلاق بھیجی تھی تو اُس وقت وہ حائضہ تھی لہٰذا وہ طلاق غیر موثر رہی اور اُسے بحوالہ حدیث ’’لیس بِشَیْئٍ‘‘ شمار نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا باقی دو طلاقیں مؤثر ٹھہریں گی اور یوں تجدید نکاح کے بعد مصالحت کی گنجائش تھی/ ہے۔ اس وضاحت کے بعد سوال یہ ہے کہ آیا فریقین میں مصالحت کی گنجائش ہے ؟ جب کہ ۱۔زید نے اگرچہ (باعتبار بر بیان ہندہ) ہندہ کو پہلی طلاق زمانۂ حیض میں دی تھی مگر دو مزید طلاقیں کیا اس کی توثیق کریں گی؟ ۲۔زید نے فتویٰ لیتے وقت (یا واپس) ہر ایک طلاق کا انکار کرکے حقیقت کو پوشیدہ رکھا ، علمائے کرام یا عدالت میں جھوٹ بولا۔ ۳۔زمانۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں اگرچہ ایسے واقعات ملتے ہیں مگر یا تو ان میں ایک ہی طلاق کا ذکر ہے جیسے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا واقعہ یا پھر کسی نے تیسری طلاق زمانہ حیض میں دی تھی جس کو شمار نہ کیا گیا ۔ جب کہ یہاں تین طلاقیں دی گئیں مگر پہلی بحالت ِ حیض دی گئی تھی؟ امید ہے آپ اس نازک معاملہ کے بار ے میں قدرے عجلت سے جواب مرحمت فرمائیں گے۔ (سائل محمد احسان الحق، بیدیاں روڈ لاہور کینٹ) ( تنظیم اہل حدیث: ۱۳ جمادی الاول ۱۴۱۷ھ) جواب : حالت ِ حیض میں طلاق کے وقوع میں اختلاف ہے لیکن راجح اور محقق بات یہ ہے کہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں چنانچہ اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: بَابُ إِذَا طُلِّقَتِ الحَائِضُ تَعْتَدُّ بِذَلِکَ الطَّلاَقِ ۔ یعنی ’’حیض والی عورت کی طلاق شمار ہو گی۔‘‘ پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قصہ سے استدلال کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاتھا: ’مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا[1] ’’یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو حکم دے کہ اپنی اس طلاق سے رجوع کرے۔‘‘
Flag Counter