Maktaba Wahhabi

384 - 382
ہے خواہ اسی شخص سے ہو یا کسی اور سے۔ حاملہ مطلَّقہ کی عدت وضعِ حمل ہے: سوال : ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دیں۔ اس کی بیوی حاملہ تھی۔ سات ماہ کے بعد ان کے یہاں بچی پیدا ہوئی۔ اب دونوں میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ان کی صلح ہو سکتی ہے؟ اگر صلح ہو سکتی ہے تو کیا پہلا نکاح بحال رہے گا یا نیا نکاح کرنا پڑے گا؟ اگر نیا نکاح کرنا پڑے تو ان کو کیا کفارہ ادا کرنا پڑے گا؟ (سائل:حافظ ثناء اللہ غوری) (۲۹ ستمبر ۱۹۹۵ء) جواب :صورتِ مرقومہ میں وضع حمل کی صورت میں عورت عدت سے فارغ ہو چکی ہے۔ اب وہ آزاد ہے جہاں چاہے باجازتِ ولی نکاح کر سکتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ﴾ (الطلاق:۴) اور اگر سابقہ شوہر سے وہ عقد کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ نئے سرے سے نکاح کے انعقاد کے لیے کوئی کفارہ نہیں ما سوائے ان امور کے جو عام حالات میں نکاح کے لوازمات میں شمار ہوتے ہیں۔ مثلاً تجدید صداق (نیا حق مہر) وغیرہ۔ دورانِ عدت نکاح کا حکم: سوال :اگر ایک عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو کیا یہ جائز ہے کہ وہ عورت چار ماہ دس دن کی عدت گزرنے سے چند دن قبل نکاح کرلے؟ (قاری ابراہیم قصوری) (۵ نومبر ۱۹۹۳ء) جواب :عدت وفات چار ماہ دس دن پورے ہونے کی صورت میں عورت جہاں چاہے باجازت ولی نکاح کر سکتی ہے اور اگر کسی عورت نے دورانِ عدت نکاح رچایا تو وہ باطل ہے۔ مکمل عدت کا پورا کرنا لازمی امر ہے۔اس میں لمحہ برابر بھی کمی کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّ عَشْرًا فَاِذَابَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ﴾ (البقرۃ: ۲۳۴) ’’اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں اور(یہ) عدت پوری کر چکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام(یعنی نکاح) کرلیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘
Flag Counter