Maktaba Wahhabi

335 - 382
الفاظ لکھ کردے دیے :’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔‘‘ ۳۔ اب بیوی نے سوچا کہ میں طلاق کا مطالبہ کرکے غلط کیا ہے۔ خاوند کی منت سماجت کی تو خاوند نے پھر رجوع کر لیا۔ تقریباً ایک ماہ بعد ان دونوں کے مابین پھر لڑائی ہوئی۔ بیوی نے پھر طلاق کا مطالبہ کر دیا تو خاوند نے طلاق لکھ کر ( جس کے الفاظ یہ ہیں:’’میں تنگ آکر اور مجبور ہو کر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں۔‘‘) یہ الفاظ لکھ کر جیب میں ڈال لیا۔ نیت کی کہ کسی واسطہ سے بیوی تک پہنچا دے گا۔ ابھی تک اس نے پہنچائی نہیں۔ اور نہ ہی بیوی کو پتہ چلا صرف ایک دوسری عورت کو اس کا علم ہوا۔ بعد میں انھوں نے سمجھوتہ کرلیا۔ اب کیا یہ طلاق شمار ہو گی یا نہیں؟ دراصل بات یہ ہے کہ اس صورتِ مسئولہ میں جو ساری مذکور ہے اس کے تحت خاوند بیوی کے اکٹھے رہنے میں گنجائش باقی ہے یا نہیں؟ ہر جز کا الگ الگ جواب تحریر فرمائیں اور آخر میں نتیجہ بھی تحریر فرمائیں کہ حل کیا ہو گا؟ کیونکہ جس کو یہ مسئلہ درپیش ہے وہ نہایت وہمی آدمی ہے ہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس کی بیوی حاملہ ہے۔ مذکورہ طلاقیں اسی حالت میں دی گئی ہیں۔ (ایک سائل: ستیانہ بنگلہ۔ فیصل آباد) (۱۱ جولائی ۱۹۹۷ء) جواب : یہ الفاظ کہ (میں تجھے فارغ کرتا ہوں) طلاق کے مفہوم کو واضح طور پر ادا کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ طلاق ہی سمجھی جائے گی۔ بعد ازاں شوہر کا اس سے اظہار رجوع بھی اس امر کی واضح دلیل ہے۔ پھر دو ماہ بعد طلاق اور اس سے رجوع بھی قابلِ شمار عمل ہے۔ اس کے بعد خاوند نے تیسری طلاق جو لکھ کر اپنے پاس رکھی ہے اگرچہ بیوی کو ارسال نہیں کی وہ بھی واقع ہو گئی ہے۔’’صحیح بخاری‘‘میں حدیث ہے: (( إِنَّ اللّٰهِ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَہَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ ۔)) [1] حدیث ہذا کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: (( وَاسْتُدِلَّ بِہِ عَلَی أَنَّ مَنْ کَتَبَ الطَّلَاقَ طَلُقَتِ امْرَأَتُہُ لِأَنَّہُ عَزَمَ بِقَلْبِہِ وَعَمِلَ بِکِتَابَتِہِ وَہُوَ قَوْلُ الْجُمْہُورِ ۔)) [2] ’’اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس نے طلاق تحریر کی اس کی بیوی مطلقہ ہو گئی۔ کیونکہ اس نے دل کا عزم کر لیا اور تحریر سے عمل کیا۔‘‘ اس مقام پر جو مسئلہ قابلِ غور ہے ووہ یہ ہے کہ عورت ہذا حاملہ ہے۔ حالتِ حمل میں دی ہوئی طلاق بلاشبہ سُنّی ہے۔ قصہ ابن عمر رضی اللہ عنہ میں مصرح ہے:
Flag Counter