Maktaba Wahhabi

278 - 382
از لاہور) ( ۱۶ جولائی ۱۹۹۹ء) جواب : بحالت ِ حمل طلاق سنی واقعی ہوتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے: (( ثُمَّ لِیُطَلقْہَا طَاہِرًا اَوْ حَامِلًا۔‘ (رواہ الجماعۃ الا البخاری، فتح الباری: ۹/ ۳۵۰))[1] اور اس کی عدت وضع حمل ہے۔ قرآن میں ہے: ﴿ وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ﴾ (الطلاق:۴) حالت حمل میں طلاق دینا اور دھوکہ دہی کی بناء پر رجوع کرنا: سوال : ایک لڑکی کو خلع طلاق(تین طلاق بیک وقت ) ہو گئی۔ پھر شوہر نے کچھ توقف کے بعد اپنے والد اور عزیز و اقرباء سے لڑکی کو یہ تاثر دیا کہ تم تو حاملہ ہو اس لیے طلاق واقع ہی نہیں ہوئی گویا دھوکہ دہی سے لڑکی کو شوہر پھر اپنے گھر لے آیا۔ چند روز بعد لڑکی کو معلوم ہوا کہ اس سے دھوکہ دہی کی بناء پر رجوع کا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ اس کو کسی وکیل نے بتایا کہ طلاق تو وہی قائم ہے۔ یعنی پہلے والی، اس لیے وہ بھی شوہر کو چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر آگئی۔ اب صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ حاملہ تھی یا نہیں بہرحال تھوڑے عرصہ بعد اسے حسب عادت سابقہ کھل کر حیض جاری ہو گیا۔ قرآن و سنت کی رو سے کیا دھوکہ کے پیش نظر پہلی طلاق ہی کو کافی سمجھا جائے یا مزید طلاق حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔ جس پر لڑکا پس و پیش کرتا ہے اور نکاح ثانی کے لیے کتنی عدت ہوگی؟ ( سائل ڈاکٹر عبید الرحمن چوہدری۔ گلستان کالونی مصطفی آباد لاہور) (تنظیم اہل حدیث : ۱۱ جمادی الثانی ۱۴۱۲ھ) جواب : مذکورہ صورت میں شوہر نے چونکہ عورت کو دوبارہ آباد کر لیا ہے اس لیے یہ رجوع کی ایک شکل ہے۔ بوقت ِ ضرورت خاوند سے دوبارہ طلاق حاصل کرنا ہوگی اور اگر وہ اس پر رضا مند نہ ہو تو عورت خلع بھی کر سکتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ عورت خاوند کو حق مہر واپس کردے اس کے عوض بذریعہ عدالت یا پنچایت وغیرہ شوہر سے رہائی حاصل کرے۔ اس صورت میں عدت ایک حیض گزرنا کافی ہے۔(ملاحظہ ہو ’’نیل الاوطار‘‘ وغیرہ) نیز لڑکی کویہ تاثر دینا کہ حالت حمل میں طلاق واقع نہیں ہوتی غلط ہے۔ طلاق واقع ہو جاتی ہے جس طرح کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مشہور حدیث واقع باب الطلاق میں اس کی تصریح موجود ہے۔ حالت ِ حمل میں طلاق کا حکم: سوال : ایک آدمی نے پہلی مرتبہ اپنی بیوی کو اشٹام پیپر پر ’’تمھیں طلاق دی، تمھیں طلاق دی، تمھیں طلاق دی، اب
Flag Counter