Maktaba Wahhabi

116 - 382
کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ اس عرصہ میں بندہ اسلام سے خارج تھا۔ اس سے ان اعمال کی پوچھ گچھ نہ ہو گی۔‘‘ جناب کیا میرا معاملہ اس عنوان میں آتا ہے کہ نہیں؟ اور میں اپنی بیوی کو شرعاً اپنے پاس رکھ سکتا ہوں؟ یعنی میں اپنی بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ آپ شرعاً اس کا کوئی حل بتا دیں! (ایک سائل) (۱۰ نومبر ۲۰۰۰ء) جواب :حرام کا ارتکاب سے شرعاً حلال چیزیں حرام نہیں ہوتی ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: (( لَا یُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ۔))[1] ’’یعنی حلال چیز حرام نہیں ہوتی۔‘‘ ’’صحیح بخاری‘‘ کے ترجمہ الباب میں ہے: (( وَقَالَ عِکْرِمَۃُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِذَا زَنَی بِأُخْتِ امْرَأَتِہِ لَمْ تَحْرُمْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ ۔)) ’’یعنی آدمی جب اپنی سالی سے زنا کر بیٹھے تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوتی۔‘‘ نیز یہ عورت (جس کا سوال میں ذکر ہے) شرعاً منصوص محرمات میں شامل نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ ﴾ (النساء:۲۴) ’’اور ان محرمات کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَأَبَی ذَلِکَ الْجمْہُورُ وَحُجَّتُہُمْ أَنَّ النِّکَاحَ فِی الشَّرْعِ إِنَّمَا یُطْلَقُ عَلَی الْمَعْقُودِ عَلَیْہَا لَا عَلَی مُجَرَّدِ الْوَطْء ِ وَأَیْضًا فَالزِّنَا لَا صَدَاقَ فِیہِ وَلَا عِدَّۃَ وَلَا مِیرَاثَ قَالَ ابن عَبْدِ الْبَرِّ وَقَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ الْفَتْوَی مِنَ الْأَمْصَارِ عَلَی أَنَّہُ لَا یَحْرُمُ عَلَی الزَّانِی تَزَوُّجُ مَنْ زَنَی بِہَا فَنِکَاحُ أُمِّہَا وَابْنَتِہَا أَجْوَزُ ۔)) [2] ’’جمہور نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ زنا سے حرمت ثابت ہو نکاح کا اطلاق محض عملِ مخصوص پر نہیں ہوتا۔ بلکہ جس عورت سے عقدہو اس پر ہوتا ہے۔ اس طرح زنا میں حق مہر نہیں ہوتا، نہ عدت اور نہ ہی میراث ہے۔‘‘ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے کہا کہ شہروں کے اہلِ فتویٰ کا اس بات پر اجماع ہے کہ زنیٰ کا مزنیہ (وہ عورت جس سے زنا کیا ہے) سے نکاح کرنا حرام نہیں تو اس کی ماں اور اس کی بیٹی سے نکاح بطریقِ اولیٰ جائز ہوگا۔‘‘
Flag Counter