Maktaba Wahhabi

326 - 382
اس کے ماموں کے گھر روزانہ آنے جانے سے منع کرتا ہوں۔ جبکہ ہفتہ دو ہفتہ بعد میں نے جانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ میں اس معاملہ کو کچھ مشکوک تصور کرتا تھا۔ اگرچہ واضح ثبوت میرے پاس نہیں۔ میری بیوی کے ماموں اور مالک مکان کے گہرے مراسم ہیں۔ براہِ کرم واضح فرمائیں میری بیوی کو طلاق ہوتی ہے یا نہیں؟ نوٹ! یہ سارے لوگ محلہ دار ہیں اور اب مجھ پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ میں بیوی کا گلا گھونٹ کر اسے قتل کرنا چاہتا تھا۔ اور میرا سارا سامان ان کے پاس ہے۔ (ایک سائل: از لاہور) (۲۸ نومبر ۱۹۹۷ء) جواب : مذکورہ صورت میں بظاہر طلاق مکرہ ہوئی ہے۔ راجح مسلک کے مطابق جمہور اہل علم کے نزدیک طلاق مکرہ واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا آپ نے جو بیوی کو طلاق دی ہے وہ مؤثر نہیں۔ زبردستی دلائی گئی طلاق واقع ہو جائے گی؟ سوال :میں اپنی بیوی کو اپنے گھر بسانا چاہتا ہوں لیکن میرے والد اور میرے سسر نے جو کہ میرے تایا بھی ہیں، زبردستی مجھ سے طلاق پر دستخط کروا لیے۔ حالانکہ میں نے طلاق نہیں دی۔ اور نہ ہی طلاق دینے کا ارادہ ہے۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں فرمائیں کہ آیا اس طرح واقعی طلاق ہو گئی ہے؟ (سائل عبدالرزاق ولد محمد شریف جامعہ عزیزیہ ساہیوال) جواب :زبردستی کا مفہوم اگر یہ ہے کہ آپ کو قتل ہونے کا ڈر تھا، اس لیے دستخط کر دیے پھر تو طلاق نہیں ہوئی، بصورتِ دیگر طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اگر یہ طلاق رجعی تھی تو عدت کے اندر رجوع ہو سکتا ہے۔ اور عدت گزرنے کی صورت میں تجدید ِ نکاح جائز ہے۔(وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَ عِلْمُہُ اَتَمُّ۔) والدین کے کہنے پر کب طلاق دی جائے؟ سوال :حدیث میں ہے کہ بیٹے پر لازم ہے کہ اپنے والد کے حکم پر اپنی بیوی کو طلاق دے دے یہ حکم کن حالات میں لاگو ہوتا ہے۔ اور کیا والدہ کے حکم پر بھی طلاق دی جا سکتی ہے یا یہ حکم صرف والد کے ساتھ خاص ہے؟ جواب :یہ اس حالت میں ہے جب باپ حق پر ہو اور اگر اپنے مفاداتِ خاصہ کی بنا پر ایسا کرنا چاہتا ہو تو اس کی اطاعت نہیں۔ کسی نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہا تھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور میرا بیٹا میرے کہنے پر بیوی کو طلاق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جواباً انھوں نے فرمایا کہ پہلے تم عمر رضی اللہ عنہ بن کر دکھاؤ پھر اطاعت کراؤ۔ شریعت کی رُو سے چونکہ اولاد پر والدہ کا حق والد سے زیادہ ہے اس لیے اس کے کہنے پر بیٹے کو بطریقِ اولیٰ طلاق دے دینی چاہیے۔ اس حکم کے والد کے ساتھ مخصوص ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ ۔)
Flag Counter