Maktaba Wahhabi

337 - 382
’’تو مجھ سے فارغ ہے تو مجھ پر حرام ہے‘‘ کہنے سے طلاق ہو جائے گی؟ سوال :ایک لڑکی سے کچھ عرصہ قبل لڑکے والوں کے اصرار پر شادی ہوئی کہ ہمارا لڑکا غلط راستے پر نہ چلا جائے، یعنی شادی اس لیے ہوئی تاکہ اس کی اصلاح ہوجائے۔ جتنا عرصہ ناکح کا والد زندہ رہا بہو کو خرچہ دیتا رہا جب کہ لڑکا والد کی زندگی میں ہی اپنی منکوحہ کو خرچہ دینے سے پہلو تہی کرتا رہا۔ والد کی وفات کے بعد بیوی کے خرچ سے بھی گریز کرتا رہا، تنگ آکر اس کی منکوحہ کئی بار والدین کے گھر چلی گئی، دو تین بار ناکح اپنے چچا وغیرہ کو ساتھ لا کر صلح کرکے لے گیا چچا وغیرہ نے ضمانتیں دیں کہ ایسا نہیں ہوگا لیکن حال وہی رہا اور اس دوران چچا وغیرہ کے سامنے یہ انکشاف بھی ہوا کہ وہ (ناکح) مختلف مواقع پر اپنی منکوحہ کو دو بار طلاق بھی دے چکا ہے۔ پھر اپنی منکوحہ کو چچا وغیرہ کے ساتھ اپنے گھر لے گیا خرچے سے گریز کی حالت حسب سابق رہی۔ کچھ وقت تو لڑکی نے گزارہ کیا ایک دفعہ اسی دوران لڑکی کا بھائی اسے ملنے گیا تو شدید بخار میں مبتلا تھی جب کہ اس کی ساس بہو سے بے نیاز گھر میں بیٹھی تھی، بھائی اپنی بہن کو مع بچی (بھانجی) کے والد کے گھر لے آیا۔ کچھ عرصہ کے بعد ناکح نے اگست ۲۰۰۵ء اپنی منکوحہ کو فون کیا تو بیوی نے اپنے اور بچی کے (جو اس وقت بھی بیمار تھی کے) خرچ کا مطالبہ کیا تو اس نے جواباً کہا: میرے پاس کچھ نہیں تو مجھ سے فارغ ہے تو مجھ پر حرام ہے۔ یہ الفاظ فون پر ہی تین بار دہرائے اور یہ بات عام ہوگئی کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ پھر اگست ۲۰۰۶ء میں منکوحہ کا بھائی اس کا سامان واپس لانے کے لیے گیا تو اس (ناکح) کی والدہ نے سامان دینے سے انکار کردیا۔ اس واقعے کے بعد اپنے ٹیلی فون پر کہے ہوئے الفاظ سے منکر ہے اور اب مختلف آدمیوں کو لے کر سسرال کے ساتھ صلح کرنے پر مصر ہے کہ مجھے گھر والی واپس دو۔ منکوحہ خاوند سے فون پر سنے ہوئے الفاظ پر حلف دیتی ہے جب کہ ناکح اس وقت ان الفاظ سے انکاری ہے نہ تو اس نے حق مہر دیا نہ بچی کا خرچ۔ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب وسنت کے مطابق جواب دیں کہ طلاق مکمل واقع ہوچکی ہے یا نہیں؟ (عبدالحمید خیر پور سادات)(۳۱ اگست ۲۰۰۷ء) جواب : ایسا شوہر جو اپنی منکوحہ کو مختلف اوقات میں دو دفعہ طلاق دے چکا ہے، پھر دوسرے وقت میں تیسری بار فون پر کہا کہ ’’تو مجھ سے فارغ ہے تو مجھ پر حرام ہے‘‘ اس طرح کنائے (یعنی اشارے) کی شکل میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ بیان کیے گئے قرائن واحوال کے مطابق اس طلاق کے وقوع میں کوئی شک نہیں، لہٰذا عورت زوجیت سے فارغ ہے۔ ہاں البتہ خارجی قرائن سے اس امر کی تصدیق نہ ہو تو پھر شوہر کی بات معتبر ہوگی۔ نیز فون پر معروف آواز قابل اعتبار ہے لہٰذا ایسی صورت میں بھی طلاق کے وقوع میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ ملاحظہ ہو’’صحیح بخاری‘‘کتاب الشہادات۔
Flag Counter