Maktaba Wahhabi

104 - 382
نابالغ ہیں۔ مذکورہ مسئلہ کی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔ (السائلہ) (۱۰ ستمبر ۱۹۹۳ء) جواب :بشرطِ صحت سوال صورتِ سوالی سے ظاہر ہے کہ خاوند کے پیش نظر اولاد کی خیر خواہی نہیں جب کہ حدیث میں ہے کہ ولی خیر خواہ ہونا چاہیے چنانچہ فرمایا: (( لَا نِکَاحَ إلَّا بِشَاہِدَیْ عَدْلٍ وَوَلِیٍّ مُرْشِدٍ ۔)) [1] ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ دو عادل گواہوں اور ہدایت والے ولی کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘ اور ’’فتح الباری‘‘ میں ہے: (( وَأَخْرَجَہُ سُفْیَانُ فِی جَامِعِہِ وَمِنْ طَرِیقِہِ الطَّبَرَانِیُّ فِی الْأَوْسَطِ بِإِسْنَاد آخر حسن عَن بن عَبَّاسٍ بِلَفْظِ لَا نِکَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ مُرْشِدٍ أَو سُلْطَان ۔)) اس سے معلوم ہوا کہ ولی ہدایت والا ہونا چاہیے اگر ہدایت والا نہ ہو تو ولی بننے کے لائق نہیں۔اور ظاہر ہے کہ ظالم ہدایت والا نہیں پس وہ ولایت سے علیحدہ ہے۔ اس وقت بادشاہ ولی ہے اگر اسلامی حکومت نہ ہو تو پنچایت کا سرپنچ ولی ہے اگر اس کا بھی تعلق نہ ہو تو نمبردار یا چوہدری جس کا کچھ سایہ سکہ ہو وہ ولی ہو جائے۔بہرصورت عورت کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے اور عورت کے لیے عورت ولی ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی کہ اپنی بیٹی وغیرہ کی ولی بن سکے۔ ملاحظہ ہو فتاویٰ اہل حدیث لشیخنا محدث روپڑی رحمہ اللہ ( ۳/۶۳ تا۱۶۸) نزاع کی صورت میں ولایت کا حکم؟ سوال :احمد نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جس کے بطن سے ۴ بیٹیاں ہیں اور ۲ بیٹے۔ میاں بیوی کی کشیدگی کی وجہ سے بچیوں کے ننھیال والد کی زندگی میں والد کی اجازت کے بغیر بچیوں کا نکاح کر سکتے ہیں؟(ایک سائل) (۷ جولائی ۱۹۹۵ء) جواب :فریقین میں جھگڑا کی صورت میں ولایت کا استحقاق قائم نہیں رہتا۔ حدیث میں ہے: (( فَإِنْ اشْتَجَرُوا، فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لَا وَلِیَّ لَہُ ۔)) [2] ’’ولیوں کا اگر آپس میں نزاع ہو جائے پس سلطان اس شخص کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘ گویا جھگڑے سے ولی، ولی نہیں رہتا۔ کیوں کہ اس سے لڑکی کو نفع پہنچنے کی امید نہیں، وہ ولی شرعاً اپنی ولایت سے معزول ہو جاتا ہے ۔ دارقطنی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
Flag Counter