Maktaba Wahhabi

305 - 382
ایک ہی مجلس میں تین دفعہ طلاق کا حکم : سوال :ایک آدمی نے شادی کی اور اس کے بچے پیدا ہوئے۔پھر اس نے دوسری شادی کر لی۔ اور اس کے بعد پہلی بیوی جس سے نو بچے پیدا ہوئے تھے کو طلاق دے دی۔ اور طلاق ایک ہی مجلس میں تین دفعہ دی گئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد دوسری بیوی فوت ہو گئی۔ اب سابقہ بیوی اور خاوند دونوں رضا مند ہیں کہ وہ دوبارہ نکاح کرلیں تو کیا وہ دونوں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں جب کہ طلاق کو پانچ سال گزر چکے ہیں۔ (محمد رمضان طاہر جامعہ رحمانیہ لاہور) (تنظیم اہل حدیث: ۳۰ جمادی الثانی ۱۴۱۶ھ) جواب :صورتِ مرقومہ میں راجح مسلک کے مطابق طلاق رجعی واقع ہوئی تھی۔’’صحیح مسلم‘‘میں حدیث ہے: کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً[1] طلاق دی کو چونکہ عرصہ پانچ سال ہو چکا ہے ظاہر ہے کہ عدت گزرنے کی بناء پر اب سلسلۂ زوجیت بھی منقطع ہوچکا ہے۔ لہٰذا اب سابقہ شوہر کو شرعاً دوبارہ نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ اس کی واضح دلیل’’صحیح بخاری‘‘میں معقل بن یسار کی ہمشیرہ کا قصہ ہے۔ اس کے خاوند نے طلاق رجعی دے کر دوبارہ نکاح کرنا چاہا تو بھائی درمیان میں رکاوٹ بن گیا تو اللہ عزوجل نے اجازت کی آیت نازل فرمائی: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرۃ: ۲۳۲) ’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو اپنے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں راضی ہو جائیں نکاح کرنے سے مت روکو۔‘‘[2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تین طلاق کے اقدام انتظامی تھے یا سیاسی؟ سوال :ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں تین کو تین ہی تصور کرلینے کا حکم نافذ کردیا تھا۔(صحیح مسلم) چونکہ یہ شرعی نہیں بلکہ سیاسی اور انتظامی حیثیت کا تھا اس لیے انھوں نے آخری ایام میں اس پر ندامت کا اظہار بھی فرمایا۔ کتاب’’صراط مستقیم اور اختلافِ امت‘‘ مولفہ علامہ ابوالمنہال صغیر احمد صاحب کے ایک اقتباس کی نقل لف ہے جس میں امام ابن القیم رحمہ اللہ کی کتاب’’اغاثۃ اللہفان‘‘ کا حوالہ درج ہے۔
Flag Counter