Maktaba Wahhabi

192 - 382
خواہ تقرر مہر ہو یا نہ ہو۔‘‘ [1] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا اور شغار یہ ہے کہ ایک شخص (دوسرے سے ) کہے کہ میں تجھے اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس شرط پر دیتا ہوں کہ تو مجھے اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح دے۔[2] (۲) آپ کے والد صاحب کی بات درست نہیں اگر رشتہ نہ لیا جائے تو یہ قطع رحمی میں داخل نہیں بلکہ یہ بدلہ چکانا ہے صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو احسان و سلوک میں دُوری اختیار کرے آپ اس کے قریب ہونے کی سعی کریں۔ دینی مسائل میں برادری کے دباؤ میں قطعاً نہیں آنا چاہیے۔ برادری ہی نے تو ابوطالب کو جہنم رسید کیا۔ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔ (۳) اسلام میں برادریوں کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ یہ تو محض ایک تعارفی ذریعہ ہے ۔ برادری سے باہر رشتہ کرنا قطعاً معیوب نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی ہمارے لیے رہنما کافی ہے۔ (۴) آپ ایسے رشتہ سے انکار کردیں ۔ یہ والد کی نافرمانی میں شامل نہیں بلکہ شرعی حکم کی بجا آوری ہے۔ ایک سے زائد بیویوں کے متعلق مسائل بیک وقت ایک سے زائد بیویاں رکھنا: سوال :ایک مسلمان مرد کے لیے ایک سے زائد شادی کے بارے میں قرآن و حدیث میں کیا احکامات ہیں اور کیا کسی مسلمان مرد کو ایک سے زائد شادی کرنے سے روکا جا سکتا ہے اگر روکا جا سکتا ہے تو کن صورتوں میں ہے؟ جواب :اسلام نے بیک وقت چار عورتوں تک عقد ِ زوجیت میں رکھنے کی اجازت دی ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾ (النساء:۳) ’’پس جو عورتیں تم کو پسند ہوں، دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت(کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو، اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔‘‘ مذکورہ آیت سے بعض اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ اسلام میں اصل تعدد ازواج ہے کیوں کہ آغازِ آیت تعدّد
Flag Counter