Maktaba Wahhabi

293 - 382
مرتکب تو نہیں ہورہے؟ ( میاں انوار اللہ، اسلام آباد) (۹ اگست ۲۰۰۲ء) جواب : صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ تین طلاقیں مختلف مجالس میں دی گئی ہیں جو مؤثر ہیں۔ اب دوبارہ آباد کاری کی کوئی صورت نہیں۔ ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾ (البقرۃ:۲۳۰) ﴿فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ وَ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾ (البقرہ: ۲۳۰) ’’جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہیں ہوگی۔ ہاں اگر دوسرا خاوند پھر طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے۔‘‘ مجلس کے مختلف ہونے سے طلاق مؤثر ہوتی ہے۔اس امر کی دلیل ’’مسند احمد‘‘ میں حدیث رکانہ بن عبد یزید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ((کَیْفَ طَلَّقْتَہَا؟ قَالَ: طَلَّقْتُہَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: ’فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ ‘ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: ’ فَإِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَارْجِعْہَا إِنْ شِئْتَ ۔‘ قَالَ: فَرَجَعَہَا۔)) [1] اس سے معلوم ہوا کہ اختلافِ مجلس سے طلاق مؤثر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔ اس حالت میں بحیثیت زوجیت زندگی بس کرنا زنا کا مرتکب ہونا ہے۔ چنانچہ بالا صورت میں مرد اورعورت کو فوراً علیحدہ کردیا جائے۔ پانچ سال قبل دی گئی طلاق اور طلاق ثلاثہ کے بعد دوبارہ نکاح: سوال : ایک صاحب ’’محمد شریف‘‘ میرے پڑوسی ہیں۔ کوئی چار پانچ برس قبل انھوں نے اپنی منکوحہ کو غصے کی حالت میں طلاق دے دی اور خود کراچی چلے گئے۔ وہاں سے وہ واپس آ چکے ہیں اور اب اپنی حرکت پر نادم ہیں۔ اور اسی بیوی سے رجوع کے خواہش مند ہیں۔ کیا اس کی ’’حلالہ‘‘ کے علاوہ کوئی صورت ہے؟ کفارہ، تعزیر یا کوئی اور صورت۔ فتویٰ مع حوالہ مرحمت فرمائیں۔ (سائل: مختار احمد ہاشمی۔ آزاد کشمیر) (۲۲ دسمبر ۲۰۰۰ء) جواب : غصے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اور عدت گذر جانے کی وجہ سے علیحدگی بھی ہو چکی ہے۔ اب اس کی زوجیت میں نہیں۔ تاہم دوبارہ نکاح کی گنجائش ہے۔ بشرطیکہ اس سے قبل دو طلاقیں رجعی نہ دے چکا ہو۔
Flag Counter