Maktaba Wahhabi

292 - 382
خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً[1] یعنی عہد نبوی اور عہد ابوبکر اور دو سال خلافت ِ عمر رضی اللہ عنہ سے تین طلاقیں(مجلس واحد کی) ایک شمار ہوتی تھیں۔ ‘‘ اب عدت گزرنے کی بناء پر سلسلۂ زوجیت بھی منقطع ہو چکا ہے ۔ البتہ جانبین کی باہمی رضا مندی سے دوبارہ عقد جدید ہو سکتا ہے۔ کیا ایک ہی وقت میں غصے میں گھر ،راستے اور گاڑی میں طلاق دہرانا اختلاف مجلس ہے؟ سوال : ’’م‘‘ کی شادی اپنی چچا زاد بہن ’’ن‘‘ سے ہوئی۔ پانچ بچے پیدا ہو گئے۔ اس کے بعد ’’م‘‘ نے ’’ن‘‘ سے مطالبہ کیا کہ تم اپنے والدین سے کہو کہ وہ میری بھانجی کا رشتہ لے لیں، میری بھانجی آپ کے گھر خوش رہے گی۔ ’’ن‘‘ نے والدین سے بات کی لیکن بے سود۔ ’’م‘‘ اپنی بیوی’’ن‘‘ کے ذریعے دباؤ ڈالتا رہا کہ یہ رشتہ ہو جائے ۔ ناکامی پر ’’م‘‘ نے ’’ن‘‘ کو دھمکی دی کہ اگر تمہارے والدین نے اپنے بیٹے کے لیے میری بھانجی کا رشتہ نہ لیا تو تمھیں طلاق دے دوں گا۔ تنازع بڑھ گیا، چند ماہ بعد اچانک ’’م‘‘ نے ’’ن‘‘ کو علیحدہ کمرے میں بند کردیا اور ہر کسی سے ملنے سے روک دیا۔ ’’م‘‘ کی بڑی بیٹی نے اپنی امی’’ن‘‘ کو بتایا کہ اس کے والد’’م‘‘ کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں اور تمھیں قتل کردیا جائے گا۔ لہٰذا’’ن‘‘ موقع پر کر خاوند کے گھر سے میکے چلی آئی۔ ’’م‘‘ اگلی صبح چند مسلح ساتھیوں کے ساتھ اپنے سسرال آیا۔ مسلح افراد کو گاڑی میں چند گز پر کھڑا کردیا اور اپنے سسر سے بات چیت کی۔ ’’م‘‘ کے سسر نے علانیہ کہہ دیا کہ ہم آپ کی بھانجی کا رشتہ نہیں لیں گے۔ اس پر’’م‘‘ نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے سسر کو پہلے الٹی میٹم دیا اور کہا:’’میں نے تمہاری بیٹی’’ن‘‘ کو طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی، اور واپس چل پڑا۔ راستہ میں بھی طلاق، طلاق کی گردان جاری رکھی اور گاڑی میں بیٹھ کر بھی طلاق طلاق کہتا رہا۔ دس بارہ سال علیحدہ رہنے کے بعد اب دونوں’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ نے باہمی رضامندی سے پھر بطورِ میاں بیوی زندگی گزارنا شروع کردی ہے۔ آپ فرمائیے کہ: ۱۔کیا تین طلاقیں جو ’’م‘‘ نے سسر کے گھر، راستے میں، اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر دیں تھیں۔(یاد رہے کہ یہ طلاقیں کسی فوری اشتعال کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دی گئی تھیں) مؤثر ہیں اور غیر رجعی ہیں یا نہیں؟ ۲۔اب جو دونوں’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ نے باہمی رضا مندی سے بطورِ میاں بیوی رہنا شروع کردیا ہے ، کیا یہ زنا کے
Flag Counter