Maktaba Wahhabi

65 - 382
(۱) آلِ رسول کے خاندان سے کسی صاحبزادی لڑکی کا نکاح کسی دوسری قوم کے لڑکے سے ہو سکتا ہے یا نہیں؟ (۲)اور اگر خود سید زادی عاقل، بالغ کسی دوسری قوم کے لڑکے کوپسند کرکے نکاح کرے تو اس صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟ (۳) لڑکی خاندانی طور پر شیعہ ہو اور وہ مسلک اہل حدیث قبول کرکے اہل حدیث نوجوان سے شادی کرلے، تو یہ نکاح صحیح ہے؟ دلائل کی روشنی میں جواب دیا جائے۔(سائل قاضی عبدالرؤف چڑھوئی تحصیل و ضلع کوٹلی آزاد کشمیر) (۳ ۔اپریل ۱۹۹۲ء) جواب :صورتِ مسئولہ میں بشرطِ صحت ِ سوال تین مسئلے قابلِ غور ہیں۔ 1 کیا سید اور غیر سید کا آپس میں نکاح ہو سکتا ہے؟ 2 کیا کوئی بالغ لڑکی والدین کی رضا مندی اور اجازت کے بغیر از خود نکاح کر سکتی ہے؟ 3 شیعہ مذہب کی حقیقت کیاہے ؟اور اس سے خروج یا تائب ہونے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ شق اوّل کے بارے میں اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ سید اور غیر سید کا باہمی نکاح نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے برعکس ان کے مابین نکاح کے جواز کے دلائل اور واقعات ملتے ہیں، اس سے سید اور غیر سید کا یہ سارا تصور جو پاک و ہند کے ہندی تہذیب سے متأثر معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ غیراسلامی ہے۔ اسلام نے تو قبیلہ و نسل کے تمام تعصبات و تفرقات کو مٹایا ہے۔ اور ان کی سخت مذمت کی ہے۔ وہ اس قسم کے جاہلانہ تصورات کو کیونکر پسند کر سکتا ہے؟ اس لیے سید زادی کا نکاح کسی غیر سید لڑکے سے بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔ (۲)۔ جہاں تک شق دوم کا تعلق ہے اس کی بابت حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ ولی کی اجازت و رضا مندی کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔ ((لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ)) [1] لیکن دوسری طرف والدین کو بھی نہایت سختی کے ساتھ تاکید کی گئی ہے کہ وہ نکاح کرتے وقت لڑکی کی پسند اور خواہش کو ملحوظ رکھیں اور بالجبر نکاح کرنے سے گریز کریں۔ بلکہ بالجبر نکاح کی صورت میں شریعت نے لڑکی کوبذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے کا اختیار بھی دیا ہے جیسا کہ احادیث کی کتابوں میں عہد رسالت کا واقعہ موجود ہے۔ بنا بریں والدین کی اجازت نکاح کے لیے ضروری ہے۔ والدین کو نظر انداز کرکے لڑکی کا از خود نکاح کر لیناغیر صحیح ہے۔ البتہ اس صورت میں عدالت حالات کا جائزہ لے کر اگر یہ فیصلہ کردے کہ والدین چونکہ ایسی جگہ جبرًا نکاح کرنا چاہتے تھے
Flag Counter