Maktaba Wahhabi

240 - 382
پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تعلیم قرآن بھی بطورِ حق مہر جائز ہے۔ ۲۔احادیث میں آیا ہے کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم کو نکاح کا پیغام بھیجا تو ام سلیم نے کہا:’’ مجھے لوگوں میں تم جیسا کوئی دوسرا نظر نہیں آیا، مگر ایک رکاوٹ ہے ، میں مسلمان ہوں اور تم کافر۔ اس لیے تمہارے نکاح میں نہیں آسکتی۔ ہاں اگر تم مسلمان ہو جاؤ اور اسلام قبول کر لو تو یہی میرا مہر ہو گا۔ اور میں اس کے علاوہ کوئی چیز بطورِ حق مہر طلب نہیں کروں گی۔‘‘ چنانچہ ابو طلحہ مسلمان ہو گئے اور یہی چیز حق مہر قرار پائی۔ (دیکھیے مصنف عبدالرزاق، ج:۶،ص: ۱۷۹، سنن النسائی) معلوم ہوا کہ نکاح میں مالی حق مہر ہونا ضروری نہیں۔ اس قسم کی شرط کے عوض بھی نکاح جائز ہے۔ ۳۔سنن ابی داؤد میں ہے۔ (( عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ مَنْ اَعْطٰی فِی صَدَاقِ امْرَأَۃٍ مِلْئُ کَفَّیْہِ سَوِیْقًا اَوْ تَمْرًا فَقَدِ اسْتَحَلَّ۔))[1] ’’کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص مٹھی بھر ستو اور کھجور بطورِ حق مہر ادا کردے تو وہ عورت اس کے لیے حلال ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حق مہر کے لیے دس درہم ۔ تین درہم ، دو درہم وغیرہ کی کوئی قید نہیں۔ ۴۔اسی طرح جامع الترمذی، میں حضرت عامر بن ربیعہ کا بیان ہے: (( اِنَّ امْرَأَۃً مِنْ بَنِی فَزَارَۃَ تَزَوَّجَتْ عَلٰی نَعْلَیْنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ : أَرَضِیْتِ مِنْ نَّفْسِکِ ، وَ مَالِکِ بِنَعْلَیْنِ؟ قَالَتْ : نَعَمْ)) [2] ’’عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے جوتوں کے جوڑے کے عوض نکاح کر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: کیا تو اپنی جان اور مال کے بدلے نعلین پر راضی ہے؟‘‘ اس نے کہا: ہاں ۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو جائز قرار رکھا۔ یہ واقعہ دالّ ہے کہ جوتوں کے جوڑے کے عوض بھی نکاح جائز ہے۔ ٭ زیادہ سے زیادہ حق مہر کی بھی کوئی تعیین نہیں: ابو عبدالرحمن السلمی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’عورتوں کو حق مہر زیاد نہ دیا کرو۔‘‘ اس پر ایک عورت بولی، ’’ امیر المومنین آپ کے لیے یہ قدغن لگانا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں:
Flag Counter