Maktaba Wahhabi

346 - 382
کسی بھی عورت سے نکاح کرے گا تو واقعتا اور حقیقتاً اُس عورت کو طلاق پڑ جائے گی۔ جناب ! جب ہم ’’تفسیر ابن کثیر سورہ احزاب‘‘ آیت :۴۹ کی تشریح کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے مگر جب کسی دوسری تفسیر مثلاً تفہیم القرآن از مولانا مودودی رحمہ اللہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بڑے سال گزر گئے ہیں۔ اس صورتِ حال میں مبتلا ہوئے۔ کیسے عبدالرحیم کو یقین آجائے کہ وہ اگر نکاح کرے گا تو طلاق نہ پڑے گی یا یہ کہ خدا تعالیٰ اس سے یومِ قیامت کو باز پرس نہ کرے گا کہ تم نے نکاح کیوں کیا یا یہ کہ نکاح کرنے کے بعد طلاق پڑ گئی اور تو نے کیوں اسے اپنے گھر رکھے رکھا اور اولاد پیدا ہوئی؟ (السائل : عبدالغفار خان طالب علم ایم اے، اُردو اورنٹیل کالج لاہور) (جلد۴۲،شمارہ: ۲۰) جواب :تتبّع و استقراء (تجربہ اور مشاہدہ )سے معلوم ہوا ہے کہ سید الفقہاء والمحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کے اپنی جامع صحیح میں مختلف تراجم ابواب و عناوین قائم کرنے سے تیس سے زائد اغراض و مقاصد ہیں۔ جن کی نشاندہی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباری‘‘ کے متفرق مقامات پر مناسبات سے کرتے جاتے ہیں۔ جس سے قاری محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بخاری رحمہ اللہ کی عادات میں سے ہے کہ جب کسی مسئلے میں اختلاف شدید ہو اور طرفین اپنے ہاں دلائل و شواہد رکھتے ہوں تو وہاں جانبِ ترجیح کو غالباً مبہم نظر ِ مجتہد پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن جہاں کوئی جہت دلائل کے اعتبار سے اقویٰ معلوم ہو وہاں اختلاف کے باوجود بصیغہِ جزم تبویب منعقد کرتے ہیں، جیسا کہ زیر بحث مسئلے میں اسی انداز کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں : بَابُ لاَ طَلاَقَ قَبْلَ النِّکَاحِ ۔ وَقَوْلُ اللّٰهِ تَعَالَی: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَکَحْتُمُ المُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ، فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّونَہَا، فَمَتِّعُوہُنَّ وَسَرِّحُوہُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا﴾ (الاحزاب:۲۸) اس سے پہلے عہد صحابہ میں اس آیت مبارکہ سے اسی طرز کا استدلال ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کیا تھا۔ جس وقت ان سے کسی نے کہا تھا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ قبل از نکاح طلاق کے وقوع کے قائل ہیں۔ انھوں نے آیت ہذا سے تمسّک لیتے ہوئے فرمایا اگر واقعہ اسی طرح ہو جیسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ اندریں صورت آیت اس طرح ہونی چاہیے تھی(( اِذَا طَلَّقْتُمُ الْمُوْمِنَاتِ ثُمَّ نَکَحْتُمُوْہُنَّ)) جب کہ اصل معاملہ معکوس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِذَا شرطیہ سے نکاح کی تعبیر کی ہے۔ پھر اس پر لفظ ثُمَّ جو ترتیب اور تَرَاخِی کا متقاضی ہے کے ساتھ طلاق کو مترتب کیا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عدم نکاح کی صورت میں طلاق کا تصور ناممکن اور محال ہے۔ مزید آنکہ مصنف رحمہ اللہ نے ترجمہ کے تحت سلف کے ایک گروہ سے اپنے مدعا کی تائید و حمایت میں بعض سلف کے آثار و اقوال نقل کیے ہیں جو سب کے سب اس بات کے قائل تھے کہ قبل از نکاح کسی صورت میں بھی طلاق واقع
Flag Counter