Maktaba Wahhabi

368 - 382
ہو گئی یا طلاق ہو گئی۔ عدت گزرنے کے بعد پہلے خاوند سے پھر نکاح کر لیا۔ پھر اگر طلاق کی نوبت آجائے تو کیا دو رجعی طلاقوں کا از سرِ نو شمار ہو گا یا ایک ہی تین والے حکم میں مؤثر ہو جائے گی؟ جواب : (۱) ظاہر یہ ہے کہ اس امر میں کوئی حد بندی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن حق شوہر پر قیاس کرتے ہوئے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ عورت تین دفعہ سے زیادہ اس حق کو استعمال نہ کرے اور اگر اس کے ساتھ رجعی طلاقوں کو ملا کر بھی تین کا عدد پورا ہو جائے تو بس اسی پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ بعض اہل علم خلع کو طلاق شمار کرتے ہیں۔ بعض احادیث میں ہے: (( إِقْبَلِ الْحَدِیْقَۃَ وَطَلِّقْہَا تَطْلِیْقَۃً)) [1] ’’مہر میں ادا شدہ باغ واپس لے اور اسے طلاق دے۔‘‘ روایت ہذا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے لیکن ان کافتویٰ فسخ کا ہے۔ دوسری طرف بحالت ِ حیض خلع کا جوازہے جب کہ طلاق کا وقوع درست نہیں۔ پھر خلع کی عدت راجح مسلک کے مطابق صرف ایک حیض ہے اور طلاق کی صورت میں تین حیض ہے۔ (۲) سابقہ شوہر سے تجدید نکاح کی صورت میں پہلی رجعی طلاق بالاتفاق شمار میں رہے گی۔ ہاں البتہ کسی غیر سے نکاح کے بعد واپس آئے تو اہل علم کا اس میں اختلاف ہے۔ بعض انہدام کے قائل ہیں جب کہ دیگر حضرات شمار میں لاتے ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی(۳/۱۵۲۔۱۵۳) راجح مسلک دوسرا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ ائمہ ثلاثہ نے عدمِ انہدام کو اختیار کیا ہے۔ (۳) راجح مسلک کے مطابق شمار میں رہے گی۔ کما تقدم۔ (۴) بایں صورت متفقہ طور پر شوہر تین طلاقوں کا مالک ہو گا۔پہلی دو رجعی ہوں گی۔ کیا دو رجعی طلاقوں کی شرائط پر دو دفعہ خلع رجعی کا بھی قیاس ہو سکتا ہے ؟ سوال :کیا دو رجعی طلاقوں کی شرائط پر دو دفعہ خلع رجعی کا بھی قیاس ہو سکتا ہے ؟(ڈاکٹر عبید الرحمن چوہدری) (۱۳ اکتوبر۲۰۰۰ء) جواب : خلع صرف ایک دفعہ ہے۔ اس کے ذریعے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے۔ طلاقِ رجعی پر اس کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ روزنامہ جنگ کے مفتی صاحب کے فتویٰ خلع پر تبصرہ: سوال : (۱) میں نے جنگ اخبار کے اندر پڑھا کہ عورت کو خلع لینے کے لیے اپنے شوہر کو راضی کرنے کے لیے کچھ
Flag Counter