Maktaba Wahhabi

110 - 382
اصلاح نہیں کرتے تو کیا یہ ان کو تحفظ فراہم کرنے کے جرم میں عنداللہ مجرم ٹھہریں گے؟ قرآن وسنت اور فہم سلف صالحین کی روشنی میں ہماری اِس کربناک اور المناک صورتِ حال میں راہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (سائل)(یکم فروری ۲۰۰۸ء) جواب : نکاح کے لیے ولی کا موجود ہونا اور اُس کی اجازت شرط ہے۔ حدیث میں ہے: (( لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ)) [1] یعنی ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ لہٰذا بالا صورت میں پڑھا ہوا نکاح قابل اعتبار نہیں۔ اب ان کی اصلاح کی صورت یہ ہے کہ دونوں جوڑوں میں تفریق کرادی جائے پھر ان سے توبہ کا اقرار لیا جائے۔ مزید کم از کم ایک ماہواری کا انتظار کیا جائے اور اگر کوئی حاملہ ہے تو وضع حمل تک انتظار ہوگا۔ بعد ازاں نئے سرے سے دونوں جوڑوں کا نکاح پڑھا جائے اور موجود اولاد کا انتساب اپنے باپوں کی طرف ہوگا۔ کیوں کہ یہ جو کچھ ہوا ناواقفی کی بنا پر ہے اور ناواقفی شرعاً عذر ہے۔ اگر یہ جوڑے اپنی شیطانی حرکت پر بضد رہیں تو پھر ان سے بائیکاٹ کردینا چاہیے۔ مشکوٰۃ باب الامر بالمعروف میں ہے کہ اگر کسی قوم میں کوئی گناہ ہوتا ہو اور وہ قوم ظالم کا ہاتھ پکڑنے پر قادر ہو پھر وہ نہ پکڑے تو اللہ کی طرف سے سب پر عذاب آئے گا۔ کن عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے؟ سوتیلی ساس (بیوی کی سوتیلی ماں) سے نکاح کا حکم: سوال :زید کی دو بیویاں ہیں جن کے نام خالدہ اور عابدہ ہیں۔ خالدہ کے بطن سے ایک لڑکی ہے جس کا نام عائشہ ہے۔ عابدہ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ زید عائشہ کا نکاح ایک شخص سے کرتا ہے جس کا نام نذیر ہے۔ چھ ماہ بعد عائشہ کا انتقال ہو جاتا ہے اور کچھ دن بعد زید کا بھی انتقال ہو جاتا ہے کیا اب نذیر عابدہ سے نکاح کر سکتا ہے؟ (عبدالرشید عراقی، سوہدرہ۔ضلع گوجرانوالہ) (۱۰ جنوری ۱۹۹۲ء) جواب :صورتِ مرقومہ میں رشتہ کے اعتبار سے عابدہ نذیر کی سوتیلی ساس لگی۔ قرآنِ مجید میں مصرّح محرمات میں اس کا ذکر نہیں ہے اور نہ کسی حدیث میں اس کی حرمت کے بارے نص موجود ہے۔ لہٰذا قرآن کے عمومی حکم کی بنا پر سوتیلی ساس سے نکاح کرنا حلال ہے۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter