Maktaba Wahhabi

57 - 382
ہے کہ اتنی کم عمر میں نکاح کیسے ممکن ہے؟ جواباً گزارش ہے کہ دین اسلام نے عمر کے اعتبار سے نکاح پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ نص قرآنی سے یہ بات ثابت ہے کہ صغر سنی میں بھی نکاح ہو سکتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَّالِّٰی۔ٓئْ لَمْ یَحِضْنَ ﴾ (الطلاق : ۴) اور جن عورتوں کو ابھی حیض نہیں آنے لگا۔‘‘ (ان کی عدت بھی تین ماہ ہے۔) امام بخاری مشارٌ الیہ باب کے تحت فرماتے ہیں: (( فَجَعَلَ عِدَّتَہَا ثَلاَثَۃَ أَشْہُرٍ قَبْلَ البُلُوغِ۔)) ’’یعنی اللہ عزوجل نے قبل از بلوغت عورت کی عدت تین ماہ مقرر فرمائی ہے۔‘‘ اس سے استمتاع کا جواز مترشح ہے۔ پھر واقعاتی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ نو دس سال کا بچہ بالغ ہو سکتاہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: (( وَفَرِّقُوا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ۔)) [1] ’’ یعنی بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر جدا کردو۔‘‘ ان الفاظ کی تشریح میں علامہ مناوی ’’فتح القدیر‘‘ شرح الجامع الصغیر میں رقمطراز ہیں: (( أَیْ فَرِّقُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ فِی مَضَاجِعِہِمُ الَّتِی یَنَامُونَ فِیہَا إِذَا بَلَغُوا عَشْرًا حَذَرًا مِنْ غَوَائِلِ الشَّہْوَۃِ وَإِنْ کُنَّ أَخَوَاتٍ۔)) [2] ’’یعنی دس سال کی عمر میں بچوں کی خواب گاہوں کو علیحدہ کردو۔ اس خدشہ سے کہ کہیں مبادیات شہوت کااظہار نہ ہو۔ اگرچہ دو بہنیں ہی کیوں نہ ہوں؟‘‘ اور’’صحیح بخاری‘‘کے باب (( بَابُ بُلُوغِ الصِّبْیَانِ وَشَہَادَتِہِمْ)) کے تحت ترجمۃ الباب میں ہے: (( وَقَالَ مُغِیرَۃُ: احْتَلَمْتُ وَأَنَا ابْنُ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ سَنَۃً وَقَالَ الحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ: أَدْرَکْتُ جَارَۃً لَنَا جَدَّۃً، بِنْتَ إِحْدَی وَعِشْرِینَ سَنَۃً۔)) یعنی مغیر ہ بن مقسم ضبی کوفی نے کہا میں بارہ سال کی عمر میں بالغ ہو گیا تھا۔ اور حسن بن صالح بن حی ہمدانی فقیہ کوفی نے کہا میں نے اپنے پڑوس میں ایک جدہ( نانی) کو پایا جس کی عمر اکیس سال تھی۔‘‘ المجالسۃ دینوری میں ہے: (( وَ اَقَلُّ اَوْقَات الْحَمْلِ تِسْع سِنِیْنَ)) ’’کم از کم حمل کی عمر نو سال ہے۔‘‘ اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی ذکر فرمایا ہے کہ انھوں نے ۲۱ سال کی جدہ( نانی) دیکھی ہے۔ نو سال مکمل ہونے پر اس
Flag Counter