Maktaba Wahhabi

358 - 382
لہٰذا سابقہ شوہر اگر چاہے تو عقد جدید ہو سکتا ہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی شادیوں کی تعداد اور طلاقیں: سوال : طلاق اگر حلال چیزوں میں ابغض (سب سے زیادہ ناپسندیدہ) ہے تو جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق تعدد ازواج کا واقعہ مشہور ہے وہ کس حد تک درست ہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کتنی شادیاں کیں؟ کتنی عورتوں کو طلاقیں دیں؟ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو صرف بڑھاپے کی وجہ سے طلاق کا کس لیے فرمایا؟ اس کی حکمت کیا تھی؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔ (محمد طیب خلیق، او ٹی ٹیچر گنڈا سنگھ ہائی سکول) (۱۶ فروری ۱۹۹۶ء) جواب : حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا کثرت سے شادیاں کرنا تاریخی واقعہ ہے جس کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’تاریخ الخلفاء‘‘ میں ابن سعد کے حوالہ سے متعدد طرق سے نقل کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس بات سے روکا تھا کہ حسن کو اپنی لڑکیاں مت پیش کرو کیونکہ وہ زوجیت میں نہیں رکھتا طلاق دے دیتا ہے۔ اس کے باوجود لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔[1] قبیلہ ہمدان سے ایک شخص نے جواباً کہا: ((وَاللّٰہِ لَنُزَوِّجَنَّہٗ فَمَا رَضِیَ اَمسَکَ وَ مَا کَرِہَ طَلَّقَ)) [2] ’’اللہ کی قسم ہم ضرور حسن رضی اللہ عنہ سے اپنی بیٹیوں کا نکاح کریں گے۔ جسے پسند کرے زوجیت میں رکھے اور جسے ناپسند کرے طلاق دے دے۔‘‘ ’’تاریخ الخلفاء‘‘ میں مصرح ہے کہ حضرت حسن نے نوّے نکاح کیے تھے۔ دراصل اس کی وجہ یہ تھی کہ عورتیں بھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف انتساب کو اپنے لیے باعث افتخار اور اعزاز گردانتی تھیں۔ علیحدگی کے باوجود ان کی محبت دل میں قائم و دائم رہتی۔ [3] یہ بھی یاد رہے کہ طلاق اصل کے اعتبار سے مشروع ہے ممنوع نہیں۔ اس لیے کہ شریعت میں اس کی اجازت موجود ہے۔ اس میں کراہت کا تعلق اس سبب سے ہوتا ہے جس کی بناء پر طلاق دی جاتی ہے۔ مثلاً کسی وجہ سے گھریلو ماحول سوء معاشرت کا شکار ہو جاتا ہے۔ یا طبائع میں عدمِ موافقت کا عنصر غالب آجاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ممکن ہے کسی ایسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصہ طلاق فرما یا ہو۔ بلکہ آپ نے بعض بیویوں کو طلاق دے کر پھر رجوع فرما لیا تھا۔ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا کہ اپنے باپ کی رضا ء کی خاطر اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ ظاہر
Flag Counter